’’من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد‘‘ یعنی:جس نے بھی کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری مہرِ تصدیق نہ ہو تو وہ مردود ہے۔ لیکن جس شخص نے عملاً اس فرمانِ مصطفیٰ کی دھجیاں بکھیر دیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرکے اپنے دین کو خالص رکھنے کی بجائے دوسروں کی آراء کا پیروکار بن کر ،اپنے دین کو ملاوٹی کرلیا،تو وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہے گا؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے توفیق حاصل نہ ہوسکے گی۔(والعیاذباللہ) سلف صالحین قبرکوبہت یاد رکھا کرتے تھے چونکہ قبر آخرت کا پہلازینہ ہے،جسے سلف صالحین بہت یاد رکھا کرتے تھے،سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ اسی حکمت کے پیش نظر،کسی بھی قبر کو دیکھ کر زاروقطار رودیاکرتے تھے،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارتِ قبور کی ترغیب دلایاکرتے تھے اور موت کو سب سے بہتر واعظ قرار دیاکرتے تھے،تاکہ لوگ اس اہم گھاٹی کی تیاری کی طرف متوجہ ہوں۔ ایک عظیم دعا جس میں قبر کے سوالوں کاجواب مذکورہے واضح ہوکہ یہ تیاری انہی تین سوالوں کے صحیح جواب میں منحصر ومرکوز ہے :’’من ربک؟مادینک؟ من نبیک؟‘‘ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا کے بار بار پڑھنے کاحکم دیا اور اس کی فضیلت بیان فرمائی،چنانچہ صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: من قال رضیت باللہ ربا وبالإسلام دینا وبمحمد نبیا،دخل الجنۃ. یعنی:جوشخص رضیت باللہ ربا وبالإسلام دینا وبمحمد نبیا،کہے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |