دوسرے مقام پرفرمایا: [اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى 36ۭاَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْـنٰى 37ۙثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰى 38ۙفَجَــعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى 39ۭاَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40ۧ][1] ترجمہ:کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا کیا وه ایک گاڑھے پانی کا قطره نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟ پھر وه لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا پھر اس سے جوڑے یعنی نر وماده بنائے کیا (اللہ تعالیٰ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زنده کردے ؟ 2دوسرا طریقِ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنجراور مردہ زمین کو شاداب کردیا،توجوذات مردہ زمین کو زندہ کرنے پر قادر ہے،اس کیلئے مردہ انسانوںکو زندہ کرنا کون سامشکل ہے؟ ارشاد فرمایا: [وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۰ۭ اِنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ] [2] ترجمہ:اس اللہ کی نشانیوں میں سے (یہ بھی) ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وه تر وتازه ہوکر ابھرنے لگتی ہے جس نے اسے زنده کیا وہی یقینی طور پر مُردوں کو بھی زنده کرنے والاہے، بیشک وه ہر (ہر) چیز پر قادر ہے ۔ مزیدارشادفرمایا: [وَہُوَالَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِہٖ۰ۭ حَتّٰٓي اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |