دونوں درجے چونکہ احسان کے ہیں، لہذا انتہائی مستحسن ہیں۔ ’’احسان‘‘ کا اعلیٰ مقام اسلام ،ایمان اور احسان میں سب سے اعلیٰ مقام احسان کا ہے، دوسرا ایمان کا اور آخری درجہ اسلام کا ہے،ہرمحسن ،مؤمن اورمسلم ہے اور ہرمؤمن ،مسلم ہے،لیکن ہر مؤمن محسن نہیں ہوسکتا،نہ ہی ہرمسلم ،مؤمن اور محسن ہوسکتاہے۔ احسان کی تعریف پر ابن رجب رحمہ اللہ کاکلام علامہ ابن رجب بغدادی رحمہ اللہ اپنی کتاب (جامع العلوم والحکم) میں حدیثِ جبریل کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان کی تعریف میں یہ فرمانا:(أن تعبداللہ کأنک تراہ )اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ ذکرکردہ کیفیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکتاہے،چنانچہ وہ دورانِ عبادت اللہ تعالیٰ کے قرب کا اس طرح استحضار کرلے کہ گویا وہ اس کے سامنے ہے اور اسے دیکھ رہاہے،اس کیفیت کا استحضار یقینا بندہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت،خوف،محبت اور تعظیم کے پیداہونے کاموجب بن جائے گا، ایک دوسری حدیث جوبروایت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے،میں (تعبد) کی جگہ (تخشی) کالفظ واردہے،یعنی :(أن تخشی اللہ کأنک تراہ)اور یہی خشیت اس امر کی متقاضی ہوگی کہ بندہ عبادت کے اندر خیرخواہی پیدا کرنے اور اسے علی وجہ الکمال اداکرنے کی بھرپور سعی کرتا رہے اور یہی عبادت کا حسن ہے۔(جسے حدیث میں احسان کہاگیا ہے)[1] حدیث میں وارد دوسرے جملے(فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک) کی شرح کرتے ہوئے،علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |