Maktaba Wahhabi

57 - 328
کے وقت سر کے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ انھیں سر منڈانے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے؟ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور میں اپنے (بال کھولے بغیر) سر پر تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔[1] معلوم ہوا کہ اگر بال مینڈھیوں کی صورت میں مضبوطی سے باندھے ہوئے ہیں تو غسل جنابت کے لیے انھیں کھولنے کی ضرورت نہیں مگر یہ حکم صرف غسل جنابت کے لیے ہے۔ غسل حیض کے لیے بالوں کو کھولنا ضروری ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، جب وہ حائضہ تھیں، فرمایا: ’’اپنے بال کھولو اور غسل کرو۔‘‘[2] جنبی سے میل جول اور مصافحہ جائز ہے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن بحالت جنابت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ ہو لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں چپکے سے نکل گیا، گھر جا کر غسل کیا، پھر واپس آیا۔ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ابوہریرہ! تم کہاں گئے تھے؟‘‘ میں نے سارا حال کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘[3] نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا، یہ ہے کہ مومن حقیقتاً نجس اور پلید نہیں ہوتا۔ جنابت، حکمی نجاست ہے حقیقی و حسی نہیں، یعنی شریعت نے مصلحت کی بنا پر ایک حالت میں بوجۂ نجس حکمی اس پر غسل واجب کیا ہے، چنانچہ جنبی کے ساتھ ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا سب جائز ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ مجھے رات کو جنابت لاحق ہوجاتی ہے (نہانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وضو کرو، اپنی شرمگاہ دھو لو، پھر سو جایا کرو۔‘‘ [4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت جنابت میں کھانا یاسونا چاہتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے تھے۔[5]
Flag Counter