[قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ][1] یعنی: کہہ دیجئے! میری تمام بدنی اورمالی عبادات ،نیز میری پوری زندگی اورموت ، اللہ رب العالمین کیلئے ہے۔ اس حدیث میں روزہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کافرمانا کہ یہ میرے لئے ہے (حالانکہ ہرعمل اللہ تعالیٰ کیلئے ہے)اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ سراسر ایک مخفی عمل ہے،جس پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی مطلع نہیں ہوپاتا۔ اس بیان سے یہ فقہ حاصل ہوتی ہے کہ روزے دار انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے روزے کو مخفی رکھنے پر بھرپور توجہ دے،ایسی کوئی حرکت نہ کر ے جس سے وہ اپنا روزہ دار ہونا ظاہرکررہاہو۔ ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:(من صام یرائی فقد أشرک)دکھاوے کا روزہ شرک ہے۔ واضح ہوکہ مذکورہ حدیثِ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کا پہلا جملہ صحیح بخاری میں ایک دوسری سند کے ساتھ اس طرح وارد ہے: (لکل عمل کفارۃ والصوم لی وأنا اجزی بہ …الحدیث)[2] یعنی(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ہر عمل کیلئے کفارہ ہوتا ہے جبکہ روزہ میرے لئے ہے اور میں نے اس کی جزاء ضرور دینی ہے۔ اس حدیث میں روزہ کی ایک نہایت منفرد اورعظیم الشان فضیلت مذکور ہے، جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ ہر عمل یاعبادت بندے کیلئے کفارہ کے طورپر ہے،کفارہ ہونے کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ بندہ جو گناہ کرتا ہے وہ روزہ کے علاوہ بقیہ اعمالِ صالحہ کی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |