جو آج کل مرو جہ نماز کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل کر دیا تو پھر دینی اور شرعی امور میں کمی بیشی کرنا کسی امتی کے لیے ہرگز جائز نہیں۔
امام نووی اور حافظ ابن قیم رحمہم اللہ فرماتے ہیں: ہر عضو کے لیے مخصوص اذکار کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ثابت نہیں۔[1]
وضو کے دیگر مسائل:
احادیث میں وضو کے اعضاء کو دو دو بار اور ایک ایک بار دھونے کا ذکر بھی آیا ہے لیکن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثر عمل تین تین بار دھونے پر رہا ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ اعضاء کا ایک ایک بار دھونا بھی کافی ہے۔
ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وضو کی کیفیت دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اعضاء کا تین تین بار دھونا سکھایا اور فرمایا: ’’اس طرح کامل وضو ہے، پھر جو شخص اعضائے وضو کو تین بار سے زیادہ دھوئے یا (یوں) کمی کرے (کہ کسی عضو کو چھوڑ دے یا پورا نہ دھوئے) تو اس نے (ترک سنت کی بنا پر) برا کیا اور (مسنون حد سے تجاوز کر کے) زیادتی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے اپنی جان پر) ظلم کا ارتکاب کیا۔‘‘ [2]
مسنون وضو سے گناہوں کی بخشش:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس وقت بندئہ مومن وضو شروع کرتا ہے، پھر کلی کرتا ہے اور ناک جھاڑتا ہے تو اس کے منہ اور ناک کے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جس وقت چہرہ دھوتا ہے اس کے چہرے کے گناہ نکل جاتے ہیں۔ چہرہ دھوتے وقت گناہ ڈاڑھی کے کناروں سے بھی گرتے ہیں اور جس وقت وہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر جس وقت مسح کرتا ہے تو اس کے بالوں کے کناروں سے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جس وقت پاؤں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں سے گناہ نکل
|