بہت تھوڑے لوگ حوض پر وارد ہوسکیں گے،حدیثِ مذکور سے کہیں یہ ثابت نہیں ہورہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے صحابہ کی صرف یہی دوجماعتیں پیش ہونگی۔ مالکی نے جب حدیثِ مذکور کو بیان کیاتو اس میں ایک غلط لفظ ڈال دیا، اور اسی غلط لفظ کی بنیا د پر صحابۂ کرام پرایک غلط حکمِ عام قائم کردیا ،چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری میں یوں بھی مروی ہے،’’فلاأری ینجومنکم إلا مثل ھمل النعم‘‘ اس نے ’’منکم‘‘مخاطب کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کی حالانکہ حدیث میں ’’منھم‘‘ ہے، پھر اس نے اپنے غلط لفظ ’’منکم ‘‘کی بنیاد پر یہ بات کہہ دی کہ صحابہ کیلئے کیا امتیاز باقی رہ گیا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ نجات پاسکیں گے ، باقی تمام جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔(والعیاذباللہ ) نیز یہ کہہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بہت کم لوگ ’’مثل ھمل النعم‘‘ نجات پاسکیں گے۔ اس نے یہ بات کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے ؛کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبرنہیں دی کہ صحابۂ کرام میں سے بہت کم نجات پاسکیں گے۔(بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ملخص یہ ہے کہ قیامت کے دن جو دو جماعتیں حوض پر وارد ہونے کیلئے آئیں گی ،چونکہ ان میں سے اکثر نے ارتداد اختیار کرلیا تھا لہذا ان میں سے اکثر کو حوض سے روک لیا جائے گااور بہت کم حوض پر وارد ہونگے ،گویا اس حدیث میں صحابہ کرام کا ذکر نہیں بلکہ ان تھوڑے سے لوگوں کا ذکر ہے ،جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام قبول تو کرلیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ارتداد اختیارکرلیا۔ ہوسکتا ہے مالکی کی مذکورہ بات عمداً نہ ہو بلکہ بربنائے خطأ ہو۔ (و اللہ اعلم) بعض احادیث میں جو یہ بات وارد ہوئی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگوںکو دور کردیا جائے گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابی یا اصیحابی کہیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |