جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو امام بخاری اورامام مسلم (رحمھما اللہ ) دونوں نے اپنی اپنی کتاب میں تقدیر کا مستقل باب قائم کیا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم (۲۶۶۴) میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (المؤمن القوی خیر واحب الی ﷲ من المؤمن الضعیف وفی کل خیر احرص علی ماینفعک واستعن ب اللہ ولاتعجز وان اصابک شیٔ فلا تقل : لو أنی فعلت کذا کان کذا وکذا ،ولکن قل: قدر ﷲ وماشاء فعل ،فان لو تفتح عمل الشیطان ) ترجمہ:طاقت ور مؤمن ، اللہ تعالیٰ کو کمزور مؤمن سے زیادہ بھلا اور محبوب ہے ،ویسے دونوں میں بھلائی اوربہتری ہے ۔ تم اپنے لئے ہر نفع بخش چیز کی حرص اور تمنا رکھواور اس کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو،اور عاجز نہ بنو ۔اور اگر کوئی تکلیف پہنچے تو یوں مت کہو کہ اگر میں اس طرح کرلیتا تو اس طرح ہوجاتا ۔بلکہ یوں کہو: اللہ تعالیٰ کا یہی منظور ومقدورتھا،اور جو کچھ اس نے چاہاوہی کیا ۔ ’’ لو ‘‘یعنی اگر اگر کہنا شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں (۲۶۵۵)اپنی سند سے طاؤس (تابعی) کے حوالے سے بیان کیا ہے وہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے پایا:ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے ۔مزید فرماتے ہیں:عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے سنا:وہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [کل شیٔ بقدر حتی العجز والکیس] یعنی ہر چیز حتی کہ عجز اور کیس بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ساتھ ہے۔ عجز اور کیس آپس میں دومتضاد لفظ ہیں،کیس سے مراد عقلمندی، ہوشیاری اور محنت وغیرہ ،اور عجز سے مر اد عاجزی ،سستی اور کاہلی ہے۔ یہ سب تقدیر کے ساتھ مربوط ومنسلک ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہو ئے فرماتے ہیں: عاجز کا عجز وضعف اور کیس یعنی دانا کی دانائی اور عقلمندی سب تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔[1] |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |