آواز سے) سورئہ فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔[1]
آمین کا مسئلہ:
جہری نمازوں میں سورئہ فاتحہ کے آخر میں امام اور مقتدی دونوں اونچی آواز سے آمین کہیں۔
آمین کی ابتداء امام کرے گا، اس کی آواز سنتے ہی مقتدی حضرات بھی آمین کہیں گے۔ امام سے پہلے یا کچھ دیر بعد میں اونچی آواز میں آمین کہنا ٹھیک نہیں۔ لیکن اگر امام بلند آواز سے آمین نہ کہے تو مقتدی حضرات کو آمین کہہ دینی چاہیے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، امام کی اقتدا پر مقدم ہے۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضّالِّينَ )) پڑھا، پھر آپ نے بلند آواز سے آمین کہی۔[2]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضّالِّينَ )) پڑھتے تو آپ اونچی آواز سے آمین کہتے تھے۔[3]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی تو اس کے پہلے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ [4]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس مقتدی نے ابھی سورۂ فاتحہ شروع یا ختم نہیں کی، وہ بھی آمین کہنے میں دوسروں کے ساتھ شریک ہو گا تا کہ اسے بھی گزشتہ گناہوں کی معافی مل جائے، بعد میں وہ سورئہ فاتحہ مکمل کر کے دوبارہ آہستہ آمین کہے گا۔ واللّٰہ أعلم۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام اونچی آواز سے آمین کہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم اسی صورت میں دے سکتے
|