Maktaba Wahhabi

130 - 328
(( بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعَ جَلَبَةً، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُكُمْ؟)) قَالُوا: اسْتَعْجَلْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: ((فَلَا تَفْعَلُوا، إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا سَبَقَكُمْ فَأَتِمُّوا)) ’’اس دوران میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کھٹ پٹ سنی تو آپ نے نماز کے بعدپوچھا: ’’تم کیا کر رہے تھے؟‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ہم نماز کی طرف جلدی جلدی آ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسا نہ کرو۔ جب تم نماز کے لیے آؤ تو آرام و سکون سے آؤ، جو نماز تمھیں مل جائے (جو تم پالو) پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے بعد میں پورا کرو۔‘‘ [1] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم نماز کا ارادہ کرکے آتے ہو تو نماز ہی میں ہوتے ہو (لہٰذاوقار اور سکون کے ساتھ آیا کرو)۔‘‘ [2] اماموں پر وبال: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اماموں نے نماز اچھی طرح (ارکان کی تعدیل اور سنتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے) پڑھائی تو تمھارے لیے بھی ثواب ہے اور ان کے لیے بھی ثواب ہے اور اگر نماز پڑھانے میں خطا کی (رکوع و سجود میں عدم اطمینان، قومے اور جلسے کے فقدان سے نماز پڑھائی) تو تمھارے (مقتدیوں کے) لیے تو ثواب ہے اور ان کے لیے وبال ہے۔‘‘ [3] امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی امام بے وضو یا بحالت جنابت نماز پڑھا دیتا ہے تو مقتدیوں کی نماز صحیح ہے اور امام پر نماز کا لوٹانا لازم ہے، چاہے اس نے یہ کام ارادتًا کیا ہو یا لا علمی کی بنا پر۔ نماز پڑھا کر امام مقتدیوں کی طرف منہ پھیرے: سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تھے تو ہماری طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔[4] سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر اپنے دائیں طرف سے مڑتے تھے۔[5]
Flag Counter