نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’موت کی آمد سے پہلے اس کی آرزو کرو نہ موت کی دعا مانگو کیونکہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی (نیکی کرنے کی) امید ختم ہو جاتی ہے اور مومن کی لمبی عمر اسے نیکیوں ہی میں آگے بڑھاتی ہے۔‘‘ [1]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا: ’’دنیا میں اس طرح رہ گویا کہ تو مسافر بلکہ راہی ہے۔‘‘ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: جب شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کر۔ جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کر۔ تندرستی کو بیماری اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جان۔[2]
خود کشی سخت گناہ ہے:
نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا ہے، وہ جہنم میں اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو شخص نیزہ چبھو کر اپنی جان دیتا ہے، وہ جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ چبھوتا رہے گا۔‘‘ [3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے (ایک ایسے ہی شخص کے متعلق) فرمایا: ’’میرے بندے نے اپنی جان خود لی، اس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘ [4]
صحیح مسلم کی اس روایت میں ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، لہٰذا معزز اہل علم اس کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں تاکہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔
میت کو بوسہ دینا جائز ہے:
جس شخص کا کوئی قریبی دوست یا عزیز فوت ہو جائے تو اس کا میت کو فرط محبت سے بوسہ دینا جائزہے کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آپ کو بوسہ دیا تھا۔[5]
میت کا غسل:
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو نہلا رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ’’اسے تین، پانچ یا سات بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری بار (پانی میں) کچھ کافور بھی ملا لو۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’غسل داہنے اعضائے وضو سے شروع کرو۔‘‘ (سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) ہم نے (غسل کے بعد) اس کے بالوں کی تین چوٹیاں گوندھیں اور انھیں پیچھے ڈال دیا۔[6]
|