یعنی:عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کلام فرمانا ہے (حساب لیناہے)اس طرح کہ تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے بیچ میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا،وہ شخص دائیں بائیں جھانکے گا مگر اسے(کوئی حمایتی)نظر نہ آئے گا،اور اس کے سامنے سے جہنم کی آگ استقبال کرے گی،پس اس آگ سے بچنے کیلئے اپنی تمام طاقت صرف کردو (کچھ نہ ہو )تو آدھی کھجور ہی اس کی راہ میں صدقہ کردو۔ اس حساب کی شدت اور سنگینی جاننے کیلئے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو پڑھ لیجئے: عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا،أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: (لیس أحد یحاسب یوم القیامۃ إلاھلک)فقلت یا رسول اللہ:ألیس قد قال اللہ تعالیٰ:[فأما من أوتی کتابہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا]فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :(إنما ذلک العرض،ولیس أحد یناقش الحساب یوم القیامۃ إلا عذب)[1] یعنی:عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جس بھی شخص کاحساب لیاجائے گا،وہ ہلاک ہوجائے گا۔ میں نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے: (ترجمہ) ’’جس شخص کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیاجائے گا اس کا حساب آسان لیا جائے گا۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آسان حساب سے مراد گناہوں کا پیش کیاجانا ہے، لیکن جس شخص سے دورانِ حساب اس کے گناہوں پر مناقشہ ہوگیا وہ ضرور عذاب دیاجائے گا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے یوں پوچھ لیا کہ تم نے فلاں گناہ کیوں کیا تھا؟) |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |