مختلف آیات کا جواب:
ہمارے ہاں ایک رواج یہ ہے کہ امام جب بعض مخصوص آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ اور بعض مقتدی، نماز میں بآواز بلند ان کا جواب دیتے ہیں۔ یہ عمل صحیح نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں کوئی صحیح صریح روایت نہیں ہے۔ ہاں بعض آیات کی تلاوت کے بعد امام یا منفرد قاری اپنے طور پران کا جواب دے تو جائز ہے، چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح والی آیت پڑھتے تو تسبیح کرتے جب سوال والی آیت تلاوت کرتے تو سوال کرتے اور جب تعوذ والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتے۔[1]
﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴾ پڑھنے والے کا اس کے بعد جواباً سبحانَ ربِّيَ الأعلى کہنا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔[2]
سورۂ غاشیہ کے اختتام پر اللَّهمَّ حاسِبْني حسابًا يسيرًا کہنا ثابت نہیں۔
نماز میں شیطانی وسوسوں سے بچنے کی دعا اور علاج:
سیدنا عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! شیطان میرے، میری نماز اور قراء ت کے درمیان حائل ہو جاتا اور قراء ت میں التباس پیدا کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شیطان کا نام خِنزَبُ ہے۔ جب تم اسے محسوس کرو تو اللہ سے پناہ مانگو، یعنی أعوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ پڑھو اور بائیں جانب تین بار تھتکارو، یعنی تھو تھو کرو۔‘‘
سیدنا عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو اللہ نے مجھے اس (شیطان) سے نجات دی اور اسے دور کر دیا۔[3]
دوران نمازمیں کوئی سوچ آنے پر نماز باطل نہیں ہوتی۔ سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عصر پڑھی۔ نماز کے بعد آپ فورًاکھڑے ہوگئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے۔ لوگ پریشان ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہروں پر تعجب کے آثار دیکھ کر فرمایا: ’’مجھے نماز کے دوران
|