سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارے پاس فرشتے رات اور دن کو باری باری آتے ہیں۔ یہ آنے اور جانے والے فرشتے نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں۔ جو فرشتے رات کو تمھارے پاس رہے وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ اپنے بندوں کا حال خوب جانتا ہے: ’’تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟‘‘ وہ کہتے ہیں: ہم نے انھیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس اس حال میں گئے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ [1]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔اگر انھیں ان نمازوں کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ان میں ضرور پہنچیں چاہے انھیں سرینوں کے بل گھسٹ کر ہی آنا پڑے۔‘‘ [2]
سرینوں کے بل گھسٹ کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاؤں سے چلنے کی طاقت نہ ہو تو ان نمازوں کے ثواب اور اجر کی کشش انھیں چوتڑوں کے بل گھسٹ گھسٹ کر مسجد پہنچنے پر مجبور کر دے، یعنی ہر حال میں پہنچیں۔
نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر اس قدر پیاری تھی کہ جنگ خندق کے دن کفار کے حملے اور تیر اندازی کے سبب یہ نماز فوت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید رنج پہنچا، اس پر نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے: ’’ہمیں کافروں نے درمیانی نماز، یعنی نماز عصر سے باز رکھا حتی کہ سورج بھی غروب ہو گیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔‘‘[3]
نمازی اور شہید:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک قبیلے کے دو شخص ایک ساتھ مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ میں شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب ایک سال کے بعد فوت ہوئے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا، اس شہید سے پہلے جنت میں داخل ہوگئے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے بڑا تعجب ہوا (کہ شہید کا رتبہ تو بہت بلند ہے، اس لیے جنت میں اسے پہلے داخل ہونا چاہیے تھا۔) میں نے صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ہی اس (تقدیم و تاخیر) کی وجہ
|