حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔[1]
جنبی کے قرآن پڑھنے کی کراہت:
حالت جنابت میں قرآن حکیم کی تلاوت کے ممنوع ہونے کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا اور کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔‘‘ [2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مذکورہ حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ’’حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث حسن کی قسم سے ہے اور دلیل بننے کے لائق ہے۔‘‘ [3]
تو معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں۔ چونکہ جنابت عموماً ایک اختیاری حالت ہے جس کا ازالہ بھی اختیاری ہے، یعنی غسل کرکے یا (کسی و جہ سے غسل نہ کر سکنے کی صورت میں) تیمم کرکے انسان اس حالت کو دور کر سکتا ہے، لہٰذا جنبی شخص کے لیے قرآن کریم کی تلاوت جائز نہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی حسن سند کے ساتھ یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک جنبی نہ ہوجاؤ اوراگر جنابت لاحق ہوجائے تو پھر ایک حرف بھی نہ پڑھو۔[4]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے کہ وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہ دیا۔[5]
جب حدث اصغر کی حالت میں سلام کا جواب دینا مکروہ ہوا تو جنبی کا قرآن کی تلاوت کرنا بالاولیٰ مکروہ ہوا، البتہ باقی اذکار کی بابت امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جنبی کے لیے تسبیح، تحمید، تکبیر اور دیگر دعائیں اور اذکار بالاجماع جائز ہیں۔[6]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔[7]
کیا حائضہ قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے؟:
حالت حیض و نفاس میں قرآن کریم کی تلاوت کے ممنوع و ناجائز
|