[اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ][1] یعنی: ہم نے ہی اس ذکر (کتاب وسنت)کونازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ واضح ہوکہ اگر کسی نے کسی قسم کی تحریف کی مذموم کوشش کی بھی تو اس امت کے جہابذہ نے اسے بے نقاب کرکے،اس سازش کو ناکام بنادیا،گویا قرآن وحدیث کا محافظ خود اللہ رب العزت ہے اور اس نے حفاظت کا یہ شرف اپنے ان بندوں کو سونپ دیا جو قرآن وحدیث کے لفظی ومعنوی حافظ ہیں،یہ اس زمین کی پشت پر اللہ تعالیٰ کے دین کے حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہیں۔فرحمھم ﷲ وزادھم شرفا. دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: [اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاۗءَهُمْ ۚ وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ 41ۙلَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ۭتَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ 42 ][2] یعنی: بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے کفرکیا قرآن کے ساتھ، جب وہ آیا ان کے پاس(تووہ ہلاک ہوگئے) اور بے شک وہ البتہ ایک کتاب ہے بلند مرتبہ، نہیں آسکتا اس کے پاس باطل اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے(وہ)نازل کردہ ہے بڑے حکمت والے قابلِ تعریف کی طرف سے ۔ 4ایک فرق یہ بھی ہے کہ کتبِ سابقہ کانزول جملۃً واحدۃً ہوگیا، لیکن قرآن پاک کا نزول، آہستہ آہستہ حسبِ ضرورت ہوا،جس کے بہت سے مقاصد ہیں،ایک اہم مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تثبیتِ قلبی ہے،دوسرامقصد امت کیلئے آسانی مہیاکرنا ہے،ایک اورمقصدیہ بھی ہے کہ جس طرح قرآن مجید آہستہ آہستہ نازل ہوا اسی طرح اسے پڑھنے والے خوب سوچ سمجھ کر ترتیل کے ساتھ پڑھیں،آیتِ ذیل میں انہی بعض مقاصد کی طرف اشارہ ہے۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |