Maktaba Wahhabi

61 - 328
ہونے کے بارے میں کوئی مقبول (صحیح یا حسن) حدیث نہیں ہے، لہٰذا حائضہ عورت قرآن چھوئے بغیر زبانی تلاوت کر سکتی ہے جبکہ ذکرواذکار اور دعائیں بالاجماع جائز ہیں۔ اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، آپ فرماتی ہیں کہ میں ایام حج میں حائضہ ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیت اللہ کے طواف کے علاوہ باقی ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔‘‘ [1] سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورتوں کو بھی عید کے روز عید گاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ لوگوں کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعا کریں لیکن نماز نہ پڑھیں۔[2] استحاضہ کا مسئلہ: استحاضہ یہ ہے کہ ایام حیض کے بعد بھی عورت کی شرمگاہ سے خون جاری رہے۔ یہ ایک مرض ہے۔ جب عورت اپنے حیض کے دن پورے کرلے تو پھر اسے غسل کر کے نماز شروع کر دینا لازم ہے کیونکہ خونِ استحاضہ کا حکم خونِ حیض سے مختلف ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابو حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے خونِ استحاضہ آتا ہے اور میں (بوجہ خونِ استحاضہ) پاک نہیں ہوتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، خونِ استحاضہ ایک (اندرونی) رگ (سے بہتا) ہے اور یہ خون، حیض نہیں، لہٰذا جب تمھیں حیض کا خون آئے تو ایام حیض کے بقدر نماز چھوڑ دو اور جس وقت خونِ حیض بند ہو جائے (اور خونِ استحاضہ شروع ہو) تو اپنے استحاضہ کے خون کو دھو لو اور نماز پڑھو۔‘‘ [3] حاصل کلام یہ کہ مستحاضہ پاک عورت کی طرح ہے۔ اس پر لازم ہے کہ ایام حیض کے بعد غسل کر کے نماز شروع کر دے۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتی رہے۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سیدہ فاطمہ بنت ابو حبیش رضی اللہ عنہا سے یہ بھی فرمایا: ’’ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرو۔‘‘ [4] وضاحت: خون حیض، بلوغت کی علامت ہے۔ یہ ایک طبعی خون ہے۔ اس کا آنا بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس استحاضہ بیماری کی علامت ہے۔ چونکہ یہ خون، حیض سے پہلے بھی آتا ہے اور حیض کی مدت گزر
Flag Counter