سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اذان کے انیس (19) اور اقامت کے سترہ (17) کلمات سکھائے۔[1]
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو دوہری اذان اور دوہری اقامت سکھائی مگر افسوس کہ بعض لوگ محض اپنے فقہی مسلک کی پیروی میں بے حد ناانصافی سے کام لیتے ہوئے ایک ہی حدیث میں بیان شدہ دوہری اقامت پر ہمیشہ عمل کرتے ہیں مگر دوہری اذان پر کبھی عمل نہیں کرتے، حالانکہ اذان و اقامت کو دوہرا یا دونوں کو اکہرا کہنا، دونوں طرح سنت سے ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک ایک مسلمان کسی مخصوص فقہ کے تقلیدی بندھنوں سے رہائی نہیں پاتا، وہ اطاعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا نہیں کر سکتا، لہٰذابہتر یہ ہے کہ کسی مسئلے میں مختلف ائمہ کے دلائل کا موازنہ کر کے کوئی رائے قائم کی جائے۔ یہ بات تسلیم ہے کہ ایک جاہل آدمی ایسا نہیں کر سکتا مگر علمائے کرام تو جاہل نہیں، وہ لوگوں کو تصویر کا صرف ایک رخ کیوں دکھاتے ہیں، ذرا سوچیں؟
اذان اور مؤذن کے فضائل:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مؤذن کی آواز جنات، انسان اور جو جو چیز سنتی ہے، وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔‘‘ [2]
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:’’قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں تمام لوگوں سے لمبی ہوں گی (اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے کی وجہ سے وہ نمایاں ہوں گے)۔‘‘ [3]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ اور اس حالت میں بھاگتا ہے کہ اس کی ہوا آواز سمیت خارج ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ اتنی دور بھاگ جاتاہے کہ وہاں اس کے کانوں میں اذان کی آواز نہیں آتی۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو وہ آ جاتا ہے۔ جب تکبیرکہی جاتی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو پھر آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے کہ فلاں بات یاد کر، فلاں بات یاد کر، یہاں تک کہ آدمی کو پتا ہی نہیں چلتا
|