میت کا سوگ:
سیدہ ز ینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا بھائی فوت ہو گیا۔ تین دن بعد انھوں نے خوشبو منگوائی اور اسے اپنے جسم پر لگایا، پھر کہا: مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ’’جو عورت اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو، اس کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگ کرے، سوائے شوہر کے جس کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔‘‘ [1]
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹافوت ہو گیا۔ تیسرے دن انھوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگوا کر بدن پر لگائی اور کہا: ہمارے لیے شوہر کے علاوہ کسی اور (کی وفات) پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا ممنوع ہے۔[2]
میت پر رونا:
اگر میت کو دیکھ کر رونا آئے اور آنسو جاری ہوں تو منع نہیں، اس لیے کہ یہ بے اختیار رونا ہے جو جائز ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے پریشان ہونے کی وجہ سے عذاب نہیں کرتا بلکہ زبان (کے چِلاّنے اور واویلا کرنے) کی و جہ سے عذاب کرتا ہے۔‘‘ [3]
یعنی نوحہ، ماتم اور بین کرنا ممنوع اور باعث عذاب ہے۔
نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(اللہ تعالیٰ کے ہاں) وہ صبر معتبر ہے جو صدمے کے شروع میں ہو۔‘‘ [4]
یعنی واویلا اور بین کرنے کے بعد صبر کرنا، صبر نہیں۔ اصل صبر یہ ہے کہ مصیبت کے شروع ہی میں تسلیم و رضا کا مظاہرہ کیا جائے اور اظہار غم کے فطری طریقے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا جائے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے (نوحہ اور واویلا کرے)۔‘‘ [5]
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اس سے بیزار ہوں جو (موت کی مصیبت میں)سر کے بال نوچے، چِلاّ کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑے۔‘‘[6]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مومن بندے کے لیے میرے پاس بہشت
|