جانے کے باوجود نہیں رکتا، اس لیے بعض خواتین اسے بھی حیض سمجھ کر نماز چھوڑے رکھتی ہیں، لہٰذااس مسئلے کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے:
٭ جس عورت کو خون استحاضہ شروع ہوجائے اگر اُسے اس سے پہلے سے معمولِ حیض معلوم تھا کہ اتنے دن حیض آتا ہے تو یہ عورت اپنے معمول کے مطابق عمل کرکے اتنے دن حائضہ رہے گی جبکہ باقی ایام استحاضہ کے شمار کرے گی جس میں ہر فرض نماز کے لیے وضو کر کے نماز پڑھے گی۔
٭ اگر اسے اپنے حیض کی عادت معلوم نہیں لیکن اسے دونوں خونوں کے درمیان فرق کا علم ہے کہ حیض کا خون گاڑھا، سیاہ اور بدبودار ہوتا ہے، جبکہ خون استحاضہ عام طورپر ایسا نہیں ہوتا، اگر دونوں خونوں کے درمیان تمیز کر سکتی ہے تو جس خون کو وہ حیض سمجھے اسے خونِ حیض سمجھ کر حائضہ بنی رہے اور دوسرے خون کے دنوں میں مستحاضہ شمار ہوگی۔
٭ اگر اسے نہ اپنی عادت کا علم ہے، نہ وہ دونوں خونوں کے درمیان کوئی تمیز کر سکتی ہے تو اس صورت میں وہ اپنے خاندان کی عورتوں کی عام عادت کے مطابق مہینے میں چھ، سات دن حیض کے شمار کرے گی جبکہ باقی دن استحاضہ کے شمار کرے گی۔ دیکھیے: نیل الأوطار: 259/1۔
حائضہ کے لیے نماز اور روزے کی ممانعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو وہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے۔‘‘ [1]
ایک عورت معاذہ' نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضا تو دیتی ہے، نماز کی نہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم تو دیا جاتا تھا مگر نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘ [2]
نفاس کا حکم:
بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے، اسے نفاس کہتے ہیں۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
|