پرآتاہے تواس سے قبل ہی وہاں ایک فرشتہ اور ایک شیطان موجود ہوتا ہے،فرشتہ کہتاہے:اپنے دن کی مصروفیات کا خاتمہ اچھے عمل سے کرو،اورشیطان کہتا ہے :برے عمل سے کرو،اگر وہ بندہ فرشتہ کی نصیحت قبول کرکے، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتارہے حتی کہ اس پر نیند غالب آجائے توفرشتہ اس شیطان کو بھگادیتا ہے اور رات بھر اس بندے کی حفاظت کرتاہے۔(مستدرک حاکم ،مسند ابی یعلی امام ہیثمی نے مجموع الزوائد میں اس کے تمام روات کو ثقہ قراردیاہے) 2اہلِ ایمان کیلئے دعااور استغفار کرتے رہنا [اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ۔ رَبَّنَا وَاَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّيّٰــتِہِمْ۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۔ وَقِہِمُ السَّيِّاٰتِ۰ۭ وَمَنْ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ۰ۭ وَذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ][1] ترجمہ:وہ(فرشتے)جو اٹھائے ہوئے ہیں عرش کو اورجو اس کے ارد گرد ہیں وہ پاکیزگی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر اور وہ بخشش مانگتے ہیں ان لوگوں کیلئے جو ایمان لائے (کہ) اے ہمارے رب!تونے گھیر لیا ہے ہرچیز کو (اپنی) رحمت سے اور علم سے پس توبخش دے ان لوگوں کو جنہوںنے توبہ کی اور پیروی کی تیرے راستے کی اور تو بچا ان کو دوزخ کے عذاب سے، اے ہمارے رب!اورتوداخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والے باغوں میں وہ جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جونیک ہوئے ان کے باپ دادوں سے اور ان کی بیویوں سے اوران کی اولاد میں سے بے شک تو ہی بڑا غالب خوب حکمت والا ہے اور توبچا ان کو برائیوں سے اور |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |