رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو البیت المعمور دکھایاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بابت جبریل علیہ السلام سے پوچھا، توانہوں نے فرمایا:یہ بیت المعمور( جو ساتویں آسمان پرفرشتوں کی مسجد ہے )ہے جس میں ہرروز ستر ہزار فرشتے نمازاداکرتے ہیں،جو قیامت تک دوبارہ اس میںداخل نہ ہوسکیں گے.[1] فرشتوں کے نماز ادا کرنے کا ذکر اس معروف حدیث میں بھی ہے،جس میں فرشتوں کی صف بندی کابیان ہے۔[2] اس کے علاوہ فرشتوں کے قیام اور سجود کاذکر بھی احادیث میں وارد ہے ،چنانچہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:آسمانوں میں ایک بالشت بھرجگہ بھی ایسی نہیں جہاں فرشتہ محوِ سجود وقیام نہ ہو۔ فرشتوں کا انسان کے ساتھ تعلق انسان کی تخلیق سے لیکر،قبضِ روح تک جملہ مراحل ،فرشتوں کے سپرد کئے گئے ہیں،جو اللہ تعالیٰ کے امر سے ہرمرحلے کے ہرکام کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم کی حدیث بروایت انس بن مالک، میں مذکورہے کہ رحمِ مادر میں ایک فرشتہ مقررہے جو اللہ تعالیٰ کے امر سے نطفہ سے علقہ (خون کالوتھڑا)اور علقہ سے مضغہ (گوشت کی بوٹی) جیسے مراحل تبدیل کرتا،پھر اسے اللہ تعالیٰ کے امر سے مذکریامؤنث بناتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے امر سے اس کے رزق اوروقتِ موت کی تحدید کرتا ہے اور اس کے شقی (بدبخت) یاسعید (نیک بخت)ہونے کا فیصلہ کرتاہے،یہ سب باتیں ماں کے پیٹ میں طے ہوجاتی ہیں،جن کی تنفیذ فرشتے کے ذریعے ہوتی ہے۔ بہت سے فرشتے انسانوں کی حفاظت پر مأمورہیں: |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |