قیل: یا رسول اللہ !وما الجسر! قال دحض مزلۃ، فیہ خطاطیف وکلالیب وحسک، تکون بنجد فیھا شویکۃ یقال لھا السعدان، فیمر المؤمنون کطرف العین، وکالبرق،وکالریح، وکالطیر، وکأجاوید الخیل والرکاب، فناج مسلم، ومخدوش مرسل، ومکدوس فی نار جھنم)[1] یعنی:پھر جہنم پر پل نصب کیاجائے گا،اور شفاعت حلال ہوجائے گی، اور انبیاء (اللھم سلم سلم)کہہ رہے ہونگے،کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پل کیا ہے؟فرمایا: پھسلنے والی جگہ،جس کے اطراف میں لوہے کے نوک دار کنڈے ہونگے،نیز پیچ دارجھاڑیاں ہونگی،جیسا کہ تم نے نجدکی سرزمین میں کانٹوں سے بھری سعدان نامی بوٹی دیکھی ہوگی،مؤمن تو پلک جھپکنے کی مانند گذر جائیں گے،کچھ بجلی کی طرح ،کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندے کی رفتار کی طرح، اور کچھ عمدہ نسل کے گھوڑوں اور اونٹوں کی طرح ۔اس پل سے گذرنے والے کچھ لوگ تو بلکل صحیح سالم گذر جائیں گے، کچھ بری طرح زخمی کرکے چھوڑے جائیں گے ،اور کچھ اوندھے منہ جہنم میں گرادیئے جائیں گے۔ جنت اور جہنم پر ایمان کابیان یومِ آخرت پر ایمان لانے کیلئے ضروری ہے کہ جنت اور جہنم پر بھی ایمان لایاجائے، یہ بھی ماناجائے کہ یہ دونوں اس وقت موجود ہیں،نیز یہ کہ یہ ہمیشہ قائم اورباقی رہیں گی۔ جنت اللہ تعالیٰ کے اولیاء کا جبکہ جہنم اللہ تعالیٰ کے اعداء کا ٹھکانہ ہے،چنانچہ جنت کے بارہ میں قرآن پاک میں ہے: [وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ۰ۙ رَّضِيَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَہَا |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |