Maktaba Wahhabi

235 - 271
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خبر ۴۱ھ میں حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ اس سال مسلمانوں کی جمعیت متحد اورمجتمع ہوگئی، حتی کہ اس سال کو ’’عام الجماعۃ‘‘کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ نکتہ اخذ کرلیا کہ حسن رضی اللہ عنہ بچپن میں فوت نہیں ہونگے بلکہ اتنی دیر تک ضرور زندہ رہینگے کہ صلح کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی وہ پوری ہوجائے،اور کیونکہ یہ سب کچھ رونما ہوا لہذا یہی امرِ مقدور تھا۔ جس کا صحابۂ کرام کو قبل ا زوقوع (بوجہ فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )علم ہوگیا۔ اس عالم ہستی میں جوبھی خیر وشر ہے سب اللہ تعالیٰ کی قضاء وقدر سے ہے قولہ: ’’ والایمان بالقدر خیرہ وشرہ حلوہ ومرہ، وکل ذلک قد قدر ﷲ ربنا ‘‘ ’’ یعنی اچھی اور بری، میٹھی اور کڑوی ہر تقدیر پر ایمان لانا(فرض) ہے، اور یہ کہ ان تمام چیزوں کو ہمارے پروردگار اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایاہے ‘‘ تقدیر کے حوالے سے یہ مسئلہ حدیثِ جبریل میں مذکور ہے: (وان تؤمن بالقدر خیرہ وشرہ) یعنی: تم تقدیر پر ایمان لاؤ خواہ وہ خیر ہو یا شر۔ ہر چیز کا خالق اور مقدِّر ، اللہ رب العزت ہی ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [اَللہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۰ۡ][1] ترجمہ:اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ تو اس عالَم ہستی میں جو بھی خیر وشرہے، سب اللہ تعالیٰ کے قضاء وقدر ،اور مشیئت وارادہ سے ہے۔ ایک اشکال اور اس کاجواب (یہاں ایک اشکال وارد کیا جاسکتا ہے کہ) جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول
Flag Counter