Maktaba Wahhabi

243 - 271
ہے،چنانچہ صحیح بخاری(۳۴۰۹) اور صحیح مسلم(۲۶۵۲) میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (احتج آدم وموسی ،فقال لہ موسی: أنت آدم الذی أخرجتک خطیئتک من الجنۃ، فقال لہ آدم :أنت موسی الذی اصطفاک ﷲ برسالاتہ ، وبکلامہ،ثم تلومنی علی أمر قدر علی قبل أن أخلق؟فقال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فحج آدم موسی، مرتین) ترجمہ:آدم اورموسی علیہما السلام کے مابین ایک جھگڑا ہوا ،موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ آدم ہیں جنہیں آپ کے گناہ نے جنت سے نکلوادیا ،آدم علیہ السلام نے فرمایا: تم موسیٰ ہو،جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اورکلام سے مشرف فرمایا،تم مجھے ایسے مسئلہ میں ملامت کرتے ہو جو میری پیدا ئش سے بھی قبل میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار فرمایا: آدم علیہ السلام ،موسی علیہ السلام پر غالب آگئے۔ حدیث احتجاجِ آدم علی موسیٰ کا مفہوم واضح ہو کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام نے فعلِ معصیت پر تقدیر کو بطورِ حجت پیش نہیں کیا، بلکہ معصیت کے نتیجے میں نازل ہونے والی مصیبت پر تقدیر کو بطورِ حجت پیش کیا۔ حا فظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’شفاء العلیل‘‘ کا تیسرا باب اس حدیث پر بحث کرنے کیلئے قائم فرمایا،اس باب میں پہلے تو انہوں نے اس حدیث کی تشریح کے حوالے سے لوگوں کے غلط اقوال کا تذکرہ کیا ،پھر قرآن حکیم کی وہ آیات نقل فرمائیں جن میں مشرکین کا اپنے شرک کے ارتکاب کرنے پر تقدیر میںلکھے ہوئے کو بطور بہانہ یا حجت پیش کرنے کاذکر ہے،مگر اللہ تعالیٰ نے اس حجت کو پیش کرنے پر انہیں جھوٹا قرار دیا؛کیونکہ وہ اپنے شرک اور کفر پر قائم ومصر رہتے ہوئے تقدیر میں لکھے ہوئے کا عذر پیش کررہے ہیں۔یہ بات تو درست ہے کہ ان کا مبتلائے شرک ہونا تقدیر میں لکھا ہوا ہے ، مگر ان کا اسے اپنے شرک کی صحت پر محمول کرنا ایک امرِ باطل ہے،لہذا ان
Flag Counter