(( يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ))
’’لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن کو (صحیح طریقے سے) پڑھنے والاہو۔ پھر اگر قراء ت میں سب برابر ہوں تو وہ امامت کرائے جو سنت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو (سب سے زیادہ احکام و مسائل کی حدیثیں جانتا ہو)۔ اگر سنت کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو پھر امامت وہ کرائے جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو۔ اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو (موجود نمازیوں میں) سب سے پہلے مسلمان ہوا ہو۔ اور کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے زیرِ اختیار جگہ پر امامت نہ کرائے (الایہ کہ وہ موجود نہ ہو یا وہ اجازت دے دے) اور اس کے گھر میں اس کی مخصوص عزت والی جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘ [1]
اگر کسی نابالغ بچے کو کتاب اللہ زیادہ یاد ہو تو اسے امام بنایا جا سکتا ہے۔ سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اپنے قبیلے میں سب سے زیادہ قرآن مجھے یاد تھا، لہٰذا مجھے امام بنایا گیا، حالانکہ میری عمر سات سال تھی۔[2]
نابینا شخص کو امام بنانا جائز ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا، حالانکہ وہ نابینا تھے۔[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس امام کی نماز کانوں سے بلند، یعنی قبول نہیں ہوتی جس پر لوگ (بوجہ اس کی بدعات، جہالت و فسق وغیرہ کے) ناراض ہوں۔‘‘[4]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل بہت ہلکی اور بہت کامل نماز میں نے کسی امام
|