سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہم میت کو غسل دیتے، پھر ہم میں سے بعض غسل کرتے اور بعض نہ کرتے۔[1]
دونوں احادیث کو ملانے سے مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ جو شخص میت کو غسل دے، اس کے لیے نہانا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔
نو مسلم کے لیے غسل:
سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کریں۔[2]
عیدین کے روز غسل:
نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدالفطر کے روز عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔[3]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جمعہ، عرفہ، قربانی اور عیدالفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔[4]
یہ عیدین کے روز غسل پر سب سے اچھی دلیل ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس مسئلے میں اعتماد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر پر ہے، اور اس کی بنیاد جمعے کے غسل پر قیاس ہے۔[5]
احرام کا غسل:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حج کا احرام باندھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔[6]
مکے میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوتے وقت غسل کرتے تھے۔[7]
|