بعشر أمثالھا الی سبع مائۃ ضعف،قال ﷲ عزوجل الا الصیام فانہ لی وأنا أجزی بہ،انہ ترک شھوتہ وطعامہ وشرابہ من أجلی۔للصائم فرحتان:فرحۃ عند فطرہ، وفرحۃ عند لقاء ربہ، ولخلوف فم الصائم أطیب عند ﷲ من ریح المسک . ترجمہ:ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے (اس طرح باعثِ اجر ہے) کہ ایک نیکی دس گنا سے لیکر سات سو گنا کے برابر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سوائے روزہ کے ،بے شک وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ء دونگا،کیونکہ بندہ اپنی (جائز)خواہشاتِ نفس اور کھانا پینا میرے لئے چھوڑتا ہے۔روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت دوسری اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت۔روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے ۔ روزہ ایک سری عبادت ہے اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جسے سرّیّت کا تمیز حاصل ہے، یعنی یہ بندے اور اس کے پروردگار کے درمیان ایک راز ہے،جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات رمضان کے مہینے میں ایک شخص کا روزہ نہیں ہوتا اور لوگ اسے روزہ دار سمجھتے ہیں،جبکہ عام دنوں میں ایک شخص کا نفلی روزہ ہوتا ہے اور لوگ اسے روزہ سے نہیں سمجھ رہےہوتے۔ اسی سریت اور رازداری نے روزہ کے اجرکو کئی چند بڑھادیا، چنانچہ ہرنیکی کا صلہ دس گناسے سات سو گناتک ہے (اوریہ بھی بہت زیاد ہ ہے )جبکہ روزے کااجر بلاحساب ہے، اللہ تعالیٰ حدیثِ قدسی میں فرماتاہے:(فإنہ لی وأنا اجزی بہ)یعنی:یہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دونگا۔ امرِ واقع یہ ہے کہ ہرنیکی اللہ کیلئے ہے،جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان : |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |