امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے عصر کے بعد سنتوں کی قضا کے جواز پر یہ دلیل بیان کی ہے کہ عصر کے بعد کی ممانعت خفیف (ہلکی) ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں سنتوں کی قضا کے جواز کی حدیث بھی آئی ہے اوراس و جہ سے بھی کہ اس بارے میں اختلاف بھی پیش آیا ہے۔[1] جبکہ امام ابن حزم نے 23 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے (جن میں خلفائے اربعہ اور دیگر کبار صحابہ شامل ہیں) عصر کے بعد 2 رکعت پڑھنا بیان کیا ہے۔
فجر کے بعد ممانعت کا آغاز طلوع فجر سے ہوتا ہے۔ جب فجر طلوع ہو جائے تو فجر کی سنتوں کے علاوہ باقی نوافل ممنوع ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے طلوع آفتاب (کے آغاز) سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پڑھ لی (وہ اپنی نماز پوری کرے) اس نے فجر کی نماز پا لی اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پڑھ لی (وہ اپنی نماز پوری کرے) اس نے عصر کی نماز پا لی۔[2]
وضاحت: یہ رعایت اس شخص کے لیے ہے جو کسی شرعی عذر کی وجہ سے لیٹ ہو گیا ورنہ محض سستی کی بنا پر نماز اس قدر لیٹ کرنا منافقت کی علامت ہے جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
فوت شدہ نمازوں کا حکم:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّها إِذا ذَكَرَها، لا كَفّارَةَ لَها إِلّا ذلكَ
’’جو شخص نماز بھول جائے (یا سو جائے) تو اس کا کفارہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جس وقت اسے یاد آئے (یا بیدار ہو) اس نماز کو پڑھ لے۔‘‘[3]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے اور اس کا وقت گزر جائے تو جس وقت یاد آئے، وہ اسی وقت اپنی نماز پڑھ لے اور اسی طرح اگر کوئی شخص سو جائے اورنماز کا وقت گزر جائے، مثلاً: صبح آنکھ ہی ایسے وقت کھلے کہ سورج طلوع ہو چکا ہو تو جاگنے والے کو اسی وقت پوری نماز پڑھ لینی چاہیے اور اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں ہے۔
|