حال جواب عنایت فرماتے،مثلاً:ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے قیامت کے وقوع کے بارہ میں پوچھا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فإذا ضیعت الأمانۃ فانتظر الساعۃ)[1] یعنی:جب امانت کو ضائع کردیاجائے گا توقیامت کا انتظارکرنا۔ علاماتِ قیامت کی دوقسمیں اور ان کابیان علماءِ کرام نے علاماتِ قیامت کو دواقسام میں تقیسم کیاہے: 1علاماتِ قریبہ اور 2علاماتِ بعیدہ علاماتِ قریبہ سے مراد وہ علامات ہیں جو قیامت کے بالکل نزدیک رونما ہونگی،بلکہ بعض تو قیامت کے ساتھ متصل ظاہر ہونگی،ان علامات میں خروجِ دجال،نزولِ عیسیٰ علیہ السلام خروجِ یاجوج وماجوج،خروجِ دابۃ الارض، خروج الناراور طلوع الشمس من المغرب وغیرہ ہیں۔ جبکہ علاماتِ بعیدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ووفات،اورظہورِ فتن وغیرہ ہیں۔ کچھ علماء نے ایک تیسری قسم کا بھی ذکرکیاہے،یعنی :علاماتِ وسطیٰ، مثلاً :علم کا اٹھ جانااور جھل کاپھیل جانا،قتل وغارت گری،تقارب اسواق، تقارب ازمان وغیرہ وغیرہ۔ حدیثِ جبریل میں مذکور علامات کابیان حدیثِ جبریل میں قیامت کی دوعلامتوں کا ذکرہے: 1(أن تلد الأمۃ ربتھا )یعنی:لونڈی اپنے آقا کو جنے ۔ یہ کثرتِ فتوحات کی طرف اشارہ ہوسکتاہے،چنانچہ ایک شخص اپنی لونڈی سے ہمبستری کرے گا،اور وہ اس کیلئے بچہ جنے گی،یوں وہ لونڈی اپنے آقا کے بچے کی ماں کہلائے گی جسے اُمِ ولد کہاجاتاہے،بچہ کاباپ چونکہ اس لونڈی کا آقا ہے ،اس تعلق سے اس کابیٹا بھی اس کا آقا ہی شمار ہوگا۔ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |