Maktaba Wahhabi

257 - 271
1(أن تعبداللہ کأنک تراہ) اس جملے سے مراد یہ ہےکہ تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اس کے سامنے کھڑے اسے دیکھ رہے ہو،جس بندہ کی یہ کیفیت ہوجائے یقیناً وہ اپنی عبادت میں کمال وتمام کا پہلو ملحوظ رکھے گا،اور اسے ہرقسم کے نقص سے بچائے گا۔ عبادت کے تعلق سے یہ سب سے عظیم مرتبہ ہے،یہ شوق ومحبت اور طلب کی عبادت شمارہوتی ہے،اس عبادت میں اللہ تعالیٰ کی طرف قصد وانابت اور حصولِ قرب کا حسن ہوتاہے،یہ احسان کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ 2(فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک) اس جملے سے مراد یہ ہے کہ اگر مذکورہ حالت وکیفیت نہ ہوسکے تو پھر یہ شعور ضرورہو کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے،اس کاکوئی معاملہ اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ تصور بھی اگر دل میں جاگزیں ہوجائے تو یقیناً احسان ہی قرار پائے گا؛کیونکہ جس شخص کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر وقت اور ہر حال میں دیکھ رہا ہےتو وہ اس کی ہر نہی سے بچنے اور ہر امر کو انجام دینے پر ہمیشہ مستعد رہے گا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے احسان کی پہلی صورت (أن تعبداللہ کأنک تراہ)کومرتبۂ طلب وشوق قرار دیا ہے ،جبکہ دوسری صورت (فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک)کو مرتبۂ ھرب وخوف قرار دیا ہے، یعنی یہ تصور کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے،بندہ کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اجاگر کرے گا، اس خوف کے پیدا ہونے کا ثمرہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتا رہے گا ،اور اس کی عبادت کرتا رہے گا تاکہ اس کے عذاب سے بچ سکے۔ پہلا درجہ اتم واکمل ہے ،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہلے ذکر فرمایا،جبکہ دوسرا درجہ پہلے کے مقابلے میں ادنیٰ شمارہوتا ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بعد میں ذکرفرمایا،لیکن
Flag Counter