اور البتہ تحقیق اللہ نے تمہاری مدد کی بدرمیں جبکہ تم کمزور تھے چنانچہ تم اللہ سے ڈروتاکہ تم شکرکرو جب آپ کہتے تھے مومنوں سے کیا ہرگز نہ کفایت کرے گی تمہیں یہ(بات) کہ مدد کرے تمہاری تمہارا رب ساتھ تین ہزار فرشتوں کے (جو)اتارے گئے ہیں(آسمان سے) کیوں نہیں(ہاں) اگر تم صبرکرو اور تم ڈرو اور وہ (دشمن) آجائے تمہارے پاس اسی دم ابھی (تو)مدد کرے گا تمہاری تمہارا رب ساتھ پانچ ہزار فرشتوں کے (جوخاص) نشان والے ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا تھا : (ھذا جبریل آخذ برأس فرسہ ،علیہ أداۃ الحرب )[1] یعنی:یہ جبریل ہے،جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہوئے ہے اور جنگی لباس پہنے ہوئے ہے۔ 12فرشتوں کا شہداء پر اپنے پروں کا سایہ کرنا عن جابر بن عبدﷲ قال لما قتل أبی جعلت أکشف الثوب عن وجھہ وأبکی، وینھوننی، والنبی صلی اللہ علیہ وسلم لاینھاني، فجعلت عمتی فاطمۃ تبکی، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :(تبکین أو لاتبکین، مازالت الملائکۃ تظلہ بأجنحتھا حتی رفعتموہ) یعنی:جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں:جب میرے والد شہیدہوئے تو میں ان کے چہرے سے باربار کپڑا ہٹاتا اور روتاتھا،صحابۂ کرام مجھے ایسا کرنے سے منع کررہے تھے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع نہیں فرمارہے تھے ،یہ دیکھ کر میری پھوپھی فاطمہ نے بھی رونا شروع کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توروئے یانہ ر وئے،فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ ڈالے رہے،حتی کہ تم نے اسے اٹھالیا۔ 13طلبۃ العلم پر اپنے پروں کا سایہ کرنا عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من سلک |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |