Maktaba Wahhabi

738 - 764
چوتھی وجہ:....یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ لڑنے کو شامل نہیں ۔اس کہ آیت میں فرمایا گیا ہے : ﴿تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ﴾’’ تم ان سے جنگ کرتے ہویا پھر صلح کرتے ہو ۔‘‘ یہاں پر دو وصف بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ جن لوگوں کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کے لیے بلایا تھا؛ ان میں سے خلقت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جنہوں نے آپ سے کوئی جنگ نہیں کی۔بلکہ یہ لوگ جنگ سے دستبردار رہے۔ نہ ہی انہوں نے آپ سے جنگ کی اور نہ ہی آپ کے ساتھ مل کر جنگ کی۔یہ لوگ ایک تیسرا گروہ تھے۔جنہوں نے نہ ہی آپ کے ساتھ جنگ کی اورنہ ہی آپ سے سے مل کر۔ اورنہ ہی آپ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہوئے ۔ یہ سبھی لوگ مسلمان تھے۔ ان کے مسلمان ہونے پر کتاب و سنت اوراجماع صحابہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ اورباقی لوگوں کے ؛ دلائل موجود ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَo﴾ (الحجرات:۹) ’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب)اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا وصف لڑائی و جنگ وجدال کے باوجود مؤمن ہونا بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی خبر دی ہے کہ یہ سبھی آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔یہ بھائی چارہ اہل ایمان کے مابین ہی ہوسکتا ہے؛مؤمن و کافر کے مابین نہیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کے متعلق فرمایا: ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ اور لشکر علی رضی اللہ عنہ کے مابین صلح کروائی۔پس یہ حدیث ان سبھی لوگوں کے اہل ایمان ہونے کی دلیل ہے۔ اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے مابین صلح و صفائی کو پسند فرماتے ہیں ۔اور یہ کام کرنے والوں کی ثنائے خیر کرتے ہیں ۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کا م حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کا کام تھا۔ مزیدبرآں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل ِ متواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ انہوں نے دونوں گروہوں کے متعلق اسلامی احکام کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی بنے تھے؛اوران کے بچوں کو قیدی بھی نہیں بنایا گیا تھا؛اور نہ ہی ان کے وہ اموال مال ِغنیمت بنائے گئے جو وہ معرکہ میں لیکر نہیں آئے تھے۔ اوریہ آپس میں ایک دوسرے کی
Flag Counter