ایسے ہی اہل بحرین کے ساتھ جزیہ پر صلح کی۔ ان میں مجوس بھی تھے۔اور آپ کے خلفاء رضی اللہ عنہم اور دیگر تمام مسلمان علماء کا بھی اس پر اتفاق رہاہے۔[1]یہ معاملہ اسلام کے شروع میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کیساتھ جنگیں بھی لڑا کرتے تھے اور بغیر کسی جزیہ کے ان کے ساتھ معاہدے بھی کرتے تھے۔جیساکہ سورت برأت کے نزول سے قبل کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال سے ظاہر ہے۔سورت برأت میں حکم دیا گیا کہ جو مطلق عہد ہیں ‘ انہیں ختم کیا جائے۔ اوریہ حکم بھی دیا گیا کہ اہل کتاب سے اس وقت تک قتال کیا جائے یہاں تک کہ وہ جزیہ ادا کردیں ۔ پس اس بنا پر دوسرے کفار اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کے ساتھ جنگ لڑی جائے اور کوئی معاہدہ [بلا جزیہ ] نہ کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ َو احْصُرُوْہُمْ وَ اقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا﴾ [التوبۃ۵]
’’ پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پا قتل کرو انہیں گرفتار کرو ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جابیٹھو ؛ہاں اگر وہ توبہ کرلیں۔‘‘
یہاں پر فرمایا : ’’ ہاں اگروہ توبہ کرلیں ۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ ان سے اس وقت تک کے لیے قتال کرو یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں ۔
٭ رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ: ’’ مجھے اس وقت تک کے لیے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ لاإلہ إلا اللّٰہ کا اقرار کرلیں ‘‘ یہ اپنی جگہ پر حق ہے۔ جوبھی انسان اس کلمہ کا اقرار کرلے تو اس سے فوری طور پر کوئی جنگ نہیں کی جائے گی۔اور جو کوئی اس کا اقرار نہ کرے اس سے قتال کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا کردے۔ اس باب میں امام احمد رحمہ اللہ سے صریح نصوص وارد ہوئی ہیں ۔ اوردوسرا قول جو امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے؛اورجس کا ذکر علامہ خرقی رحمہ اللہ نے ’’المختصر‘‘ میں کیا ہے ؛ اس پر امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے موافقت ظاہر کی ہے۔
ٖ٭ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آیت سورت برأت کے الفاظ نصاری کے ساتھ خاص ہیں ۔اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ حکم یہود اور مجوس کو بھی شامل ہے۔
|