آپ کی رائے کے مطابق ہی عمل کیا جاتا ۔اور جب کسی کی رائے آپ کی رائے کے خلاف ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مخالف کی رائے کو ترک کردیتے اور صرف آپ کی رائے کے مطابق عمل کرتے۔
پہلے واقعہ کی مثال؛ جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا ؛ تو سب سے پہلا مشورہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی دیا ۔ امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ :
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ جب بدر کے دن قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:’’ تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو؟‘‘
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں ۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ وصول کر لیں ؛ اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے؟
آپ نے عرض کیا: نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکر کی رائے ہے۔ بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں ۔ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کریں ؛وہ ان کی گردن مار دیں ۔اور عباس کو حمزہ کے سپرد کردیجیے وہ ان کی گردن اڑا دیں ۔ اور اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا کہ اسے میرے سپرد کردیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں ۔ [کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں ]۔
ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سب کو آگ میں جلادو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف پیدا ہوا۔ان میں سے بعض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے رکھتے تھے اور بعض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے رکھتے تھے۔ اور بعض کی رائے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ والی تھی۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔‘‘اور پوری حدیث بیان کی۔ [1]
|