Maktaba Wahhabi

578 - 764
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اَعلم الناس تھے۔ باقی رہا یہ کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ گمان کیا کہ آپ فوت نہیں ہوئے، تو یہ ایک لمحہ کے لیے تھا۔ فوری طور پر ان پر منکشف ہو گیا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں ۔ایسے واقعات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی پیش آئے تھے کہ انھوں نے ایک رائے قائم کی اور وہ غلط نکلی؛ بلکہ آپ کے بہت سارے قصے ایسے ہیں جو خلاف واقعہ نکلے؛ اور آپ کا انتقال اسی حال میں ہوگیا۔ اس سے ان کی امامت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔مثال کے طور پر مفوضہ کے مہر کے مسئلہ میں آپ کا فتوی کہ اگر مفوضہ مر جائے اوراس کا مہر مقرر نہ ہوا ہو۔ اور اس طرح کے دیگر مسائل جو کہ اہل علم کے ہاں معروف ہیں ۔ جب کہ حامل کا مسئلہ بہت آسان ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھا کہ وہ عورت حاملہ ہے۔اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی غلطی نہیں ،ہوسکتا ہے کہ جب آپ نے رجم کرنے کا حکم دیاہو تو آپ کو اس کے حامل ہونے کا علم نہ ہو؛ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے آگاہ کردیا ہو۔ توآپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو میں اس کو رجم کردیتا اوراس کا جنین بھی قتل ہوجاتا ۔ اس چیز کا آپ کو خوف محسوس ہوا۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ آپ حامل کو رجم کرنا جائز سمجھتے تھے؛ تو یہ ایسا حکم ہے جو مخفی بھی رہ سکتا ۔شریعت میں تو زانیہ کے قتل کرنے کا حکم ہے۔ حمل تو اس عورت کے تابع ہے۔جیسا کہ اگر کفار کا محاصرہ کرلیا جائے [تو پھر اس میں بچے بھی قتل ہو جاتے ہیں ] جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کرکے ان پر منجنیق سے پتھر برسائے تھے۔ جس میں عورتیں اور بچے بھی قتل ہوئے۔ صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’ اگر کافروں کی بستی پر شبخون مارا جائے ‘ اوران کی عورتیں اور بچے قتل ہوجائیں تو ؟ آپ نے فرمایا: ’’ وہ انہی میں سے ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ خواتین اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ یہ بات علماء کرام کی ایک جماعت پر مشتبہ ہوگئی ؛ اس لیے انہوں نے شبخون مارنے سے منع کردیا ؛ اس خوف سے کہ کہیں عورتیں اور بچے قتل نہ ہوجائیں ۔ ایسے ہی یہ بات بعض ان لوگوں پر بھی مشتبہ رہتی ہے جو اسے جائز سمجھتے ہیں ۔مثلاً وہ کہتے ہیں : رجم ایسی حد ہے جسے فوراً نافذ کرنا چاہیے ؛ اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں ۔ لیکن سنت نے ان دونوں چیزوں میں تفریق کی ہے ؛ جس میں تاخیر ممکن ہے جیسے حد ؛ اور جسے فوری طور پر کر گزرنا چاہیے جیسے محاصرہ اور شبخون وغیرہ ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو عام لوگوں کی طرف بھی رجوع کرلیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مہر کے مسئلہ میں جب ایک عورت نے کہا: کیا ہم آپ کی بات سنیں یا اللہ تعالیٰ کی بات سنیں ؟آپ نے فرمایا نہیں : اللہ تعالیٰ کی بات سنو ؛ تو اس عورت نے کہا: پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰلہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا ﴾ [النساء۲۰]
Flag Counter