راہب کا یہ کہنا: آپ نبی مرسل ہیں یا ملک مقرب اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ کہ وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے جاہل اور گمراہ انسان تھا۔(اس کو اتنا علم نہیں تھا کہ)فرشتے پانی نہیں پیتے اورنہ ہی اسے چٹان کے نیچے سے پانی نکالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور یہ کہ محمد کے بعد کوئی بھی نبی نہیں ۔ اور یہ بھی معلوم شدہ بات ہے کہ اس راہب تک مسلمانوں کی خبر اس علاقے کے فاتحین کے ذریعہ پہنچ چکی ہوگی۔ اگر یہ پادری عیسی علیہ السلام کے بعد کسی رسول کے آنے کو جائز سمجھتا ہوتا تو پھر محمد ہی اللہ کے رسول تھے۔ اور آپ کے معجزات ظاہری و باطنی موجود تھے۔اگروہ ان کی تصدیق کرتا تو اسے علم ہوتا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اور اگر وہ اس کی تصدیق نہیں کرتا توپھر کسی دوسرے کے متعلق صرف چٹان کے نیچے پانی نکالنے کی بنا پر یہ اعتقاد کیسے رکھ سکتا ہے کہ وہ نبی مرسل ہے۔ یا یہ گرجااسی کے نام پر بنایا گیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے گرجا گھر بہت سارے ایسے لوگوں کے ناموں پر بناتے ہیں جو نہ ہی نبی ہیں اور نہ ہی رسول۔
نیز اس میں جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول درج ہے کہ :نہیں ؛ لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی ہوں ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کھلا ہوا جھوٹ اور بہتان ہے۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی اس طرح کا کوئی دعوی نہیں کیا۔نہ ہی خلفاء ثلاثہ کی خلافت میں اور نہ ہی صفین کے لیل و نہار میں ۔ بلکہ آپ اپنے مخالفین کے ساتھ مناظرے کیا کرتے تھے ان کے الزامات کا جواب دیتے۔ مگر آپ نے کبھی خود یہ دعوی کیا اور نہ ہی کسی نے آپ کے لیے یہ دعوی کیا۔ جب حکمین کو قاضی اور فیصل بنایا گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خوارج کیساتھ مناظرہ کے لیے بھیجا تو وہاں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب اور سبقت اسلامی بیان کی گئی مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وسلم کے وصی ہیں ۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت ہمت اور اسباب اس روایت کو بیان کرنے کے موجود تھے۔ اوراگر ان اسباب کے بغیر بھی اسے روایت کیا جاتا توبھی حق تھا۔ تو پھر ان اسباب کی موجودگی اس کے بیان کا فائدہ ہی کچھ اور تھا۔ محدثین کرام رحمہم اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب نقل کیے ہیں ۔مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ:
(( لأعطین الرایۃ غداً رجلاً یحب اللّٰہ و رسولہ و یحبہ اللّٰہ و رسولہ۔))
’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ [رواہ البخاری۵؍۱۸]
اور تبوک کے موقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(( ألا ترضی أن تَکون مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ إلا أنہ لا نبي بعدي))
’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی؛ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘
سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ ۔‘‘
’’تم مجھ سے ہو ‘اور میں تجھ سے ہوں ۔‘‘[سبق تخریجہ]
|