Maktaba Wahhabi

432 - 764
یہ حدیث دوسری حدیث کی نسبت زیادہ ثابت ہے؛ جسے سماک بن حرب روایت کیا ہے ؛ اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسے قبول کیا ہے۔جب کہ وہ تین جو کہ اپنی منزل کو نہ پاسکے ؛ ان کی روایت یا توآپ تک پہنچی نہیں ‘ یا پھر آپ کے نزدیک وہ روایت ثابت نہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کو آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بہت زیادہ علم اور صحیح وسقیم کی معرفت حاصل تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عادل قاضی ہونا آپ کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ اس میں کسی کو کوئی جھگڑا ہی نہیں ۔لیکن اس میں یہ دلیل کہیں بھی نہیں پائی جاتی کہ آپ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر عادل تھے۔ [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ مسائل کا حل الہام کے ذریعے معلوم کرلیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]: ہم کہتے ہیں کہ:’’ یہ غلط بات ہے۔ اس لیے کہ صرف الہام کی بنا پر فیصلہ کرنا ؛ یعنی اس طرح سے کسی انسان کے بارے میں الہام ہوگیا کہ وہ حق پر ہے؛ صرف اس الہام کی اساس پر دین اسلام میں کوئی فیصلہ کرنا حلال و جائز نہیں ہے ۔صحیح حدیث میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک تم میرے پاس اپنے جھگڑے پیش کرتے ہو؛ اوربسااوقات ایک انسان اپنی بات پیش کرنے میں دوسرے کی نسبت زیادہ تیز زبان والا ہوتا ہے؛ اور اس میں اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جس طرح سنتا ہوں ۔پس جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں ‘ اسے چاہیے کہ وہ نہ لے ؛ بیشک میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں ۔‘‘ اس حدیث میں آپ نے خبر دی ہے کہ میں خود سن کر فیصلہ دیتا ہوں ‘ صرف الہام کی بنیاد پر نہیں ۔ اوراگر الہام کے ذریعہ شرعی احکام ثابت ہو جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اﷲتعالیٰ وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کرتے کہ حق دار کون ہے اور اس طرح آپ کو شہادت کی ضرورت بھی لاحق نہ ہوتی؛اور نہ ہی مجرم سے اقرار کروانے [1]
Flag Counter