حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ کی راہ میں ایک ہزار اونٹ صدقہ میں دیئے ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ جو بھی کرے گا ‘ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘ [1]
شروع اسلام میں انفاق سبیل اللہ اور دین کی اقامت کے لیے خرچ کرنا ایک سائل پر خرچ کرنے سے بہت زیادہ باعث عظمت [و اجر و ثواب] تھا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[ تخریج گزرچکی ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی﴾ [الحدید۱۰]
’’ تم میں سے جنہوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ(دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہادکیا،ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘
|