سے حجت قائم ہوسکتی ہو۔ کیونکہ صرف تفسیر ثعلبی کی طرف منسوب کرلینا؛ یا ان لوگوں سے اجماع نقل کرنا جو منقولات کا علم ہی نہیں رکھتے ؛ اگرچہ وہ نقل کرنے میں سچے بھی ہوں ؛ اہل علم کے ہاں بالاجماع یہ حجت نہیں ہوسکتا ۔ اگراس کی اسناد کی معرفت ثابت نہ ہو۔
ایسے ہی جب ثعلبی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت میں کوئی روایت نقل کرے ؛ تو صرف اس روایت کے موجود ہونے کی وجہ سے اس فضیلت کے ثابت ہونے کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں ۔ اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔
اہل سنت والجماعت کسی چیز کے ثابت کرنے کے لیے یہ طریقہ نہیں اپناتے۔ نہ ہی کوئی فضیلت ثابت کرنے کے لیے اور نہ ہی حکم ثابت کرنے کے لیے۔اورنہ ہی دیگر کسی مسئلہ میں ۔ اورایسے ہی شیعہ [کو بھی کرنا چاہیے]۔
جب تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ صرف روایت کا موجود ہونا حجت نہیں ہوسکتا[جب تک کہ اس کی صحت ثابت نہ ہو جائے] بلکہ اس سے استدلال کرنا باطل ہے۔ ایسے ہی ہر وہ قول جسے ابو نعیم ؛ ثعلبی؛ نقاش؛ اور ابن مغازلی جیسے لوگوں کی طرف منسوب کیا جائے۔[وہ صرف روایت کے موجود ہونے کی وجہ سے حجت نہ ہوگا]۔
دوم :....شیعہ مصنف کا دعوی ہے کہ : ’’اس آیت کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہونے پر اجماع ہے ۔‘‘
[جواب]:....ہم کہتے ہیں : یہ سب سے بڑا جھوٹا دعوی ہے۔بلکہ اجماع اس بات پر منعقد ہوا ہے کہ یہ آیت خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل نہیں ہوئی۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز کی حالت میں اپنی انگوٹھی بطور صدقہ نہیں پیش کی۔اور محدثین کرام کا اجماع ہے کہ شیعہ کی بیان کردہ روایت صاف جھوٹ ہے ۔ [1]
جو کچھ اس نے ثعلبی کی تفسیر سے نقل کیا ہے ؛ محدثین کرام کا اجماع ہے کہ ثعلبی ایک گروہ سے موضوعات اور من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔جیسا کہ ہر سورت کے شروع میں اس نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اس سورت کی فضیلت میں ایک روایت نقل کی ہے۔ ثعلبی اور اس کا تلمیذ واحدی دونوں اور ان کے امثال دوسرے مفسرین کا بھی یہی حال ہے؛وہ ’’حاطب لیل (رات کا لکڑہارا جو خشک و تر میں تمیز کیے بغیر ہر قسم کی لکڑیاں جمع کرتا ہے) تھے ۔ہر صحیح وضعیف [بلکہ موضوع ]روایات تک نقل کرتے تھے۔[ علاوہ ازیں شیعہ مصنف کے ذکر کردہ دلائل سب باطل ہیں اور وہی شخص ان کو تسلیم کر سکتا ہے جو گونگا، بہرہ، صاحب ہویٰ و ضلالت ہو اور اﷲتعالیٰ نے اس کے دل کو قبول حق سے اندھا کردیا ہو]۔
|