Maktaba Wahhabi

138 - 764
انبیاء کرام علیہم السلام سے رسالت و بعثت محمدی کے تفصیلی امور پر ایمان لانے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ تو پھر باقی اہل ایمان کو چھوڑ کر کسی ایک صحابی کی موالات کا عہد انبیائے کرام سے کیسے لیا جاسکتا ہے ؟ چوتھی وجہ:....اس آیت کے الفاظ یہ ہیں : ﴿وَاسْاَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُوْنَ﴾ [الزخرف۴۵] ’’اور ہمارے ان نبیوں سے پوچھو!جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمن کے اور معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے ۔‘‘ اس آیت میں یہ سوال نہیں کیا گیا کہ ان سے پوچھا جائے کہ انہیں کس چیز کے ساتھ مبعوث کیا گیا تھا؟ [ بخلاف ازیں آیت میں انبیاء سے یہ بات دریافت کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ کیا ہم نے کچھ اور بھی معبود مقرر کیے ہیں جن کی پرستش کی جائے؟] پانچویں وجہ:....اعتراض کرنے والے کا قول کہ : انبیاء کو ان تین باتوں کا حکم دیکر مبعوث کیا گیا تھا ؛ اگر اس کی مراد یہ ہو کہ ان تین باتوں کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں تھی تو یہ رسولوں پر جھوٹ ہے۔اور اگر کہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام کی بعثت کے اصول یہی تھے تو بھی یہ انبیائے کرام علیہم السلام پر جھوٹ ہے ۔اس لیے کہ جن اصول دین کو دیکر اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا تھا ؛ ان میں : اللہ تعالیٰ پر ایمان ؛ آخرت پر ایمان اور اصول شرائع شامل ہیں ۔ ان پر ایمان لانا ان کے ہاں کسی نبی کے کسی صحابی پر ایمان لانے سے بڑھ کربلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کااقرار کرنے سے زیادہ اہم تھا ۔اس لیے کہ ان لوگوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اجمالی ایمان رکھنا واجب تھا ۔ جیسا کہ ہم پر سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام پر اجمالی ایمان رکھنا واجب ہے ۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پالیتا تو اس پر آپ کی شریعت پر ایسے ہی تفصیلی ایمان لانا واجب ہوتا جیسے ہم پر تفصیلی ایمان لانا واجب ہے۔ جب کہ باقی انبیائے کرام علیہم السلام کی شریعتوں پر تفصیلی ایمان ان امتوں کے لوگوں پر واجب تھا۔ تو پھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ جو چیز امت پر واجب ہے اسکے بیان کو چھوڑ دیا جائے اور جس چیز پر ایمان لانا واجب نہیں ہے اسے بیان کیا جائے ؟ [1]
Flag Counter