مرتکب ہوتے ہیں وہ (محمدرسول اللہ )کی شہادت میں صادق ہوسکتے ہیں؟ 7(محمدرسول ﷲ)کی شہادت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ آپ کیلئے ربوبیت میں سے کوئی حصہ نہیں ہے،چنانچہ نہ تو آپ کو پکاراجائے نہ آپ سے استغاثہ کیاجائے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ البتہ اپنی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوچیز دینے پر قادر ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی جاسکتی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی تقاضا ہے[قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللہُ][1] کہہ دیجئے میں اپنے نفس کیلئے کسی نفع یانقصان کامالک نہیں ہوں مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنے کا حکم دیا ہے :[قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۔ قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللہِ اَحَدٌ ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا][2] کہہ د یجئے میں تمہارے لئے کسی نقصان یا بھلائی کا مالک نہیں ہوں اورکہہ دیجئے مجھے اللہ تعالیٰ سے کوئی پناہ نہیں دے سکتا نہ میں اس کے علاوہ کوئی جائے پناہ پاتاہوں۔ ان نصوص سے ان لوگوں کی گمراہی آشکارہ ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپکارتے ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کرتے ہیں۔ اولاً تو یہ دعا یااستغاثہ ان کیلئے بالکل نافع نہیں ہوسکتا،ثانیاً ان پر شرک کاحکم منطبق ہوجائے گا، اورمعلوم ہے کہ شرک ظلمِ عظیم ہے جس کی قطعاً کوئی بخشش نہیں ہے ۔ 8 (محمدرسول ﷲ) کی شہادت کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کا احترام کیاجائے ،یہ احترام اس قدر ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی آواز میں |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |