اجل حاضرہوتی ہے،مقررکردہ فرشتہ اس کی روح قبض کرتا ہے : [قُلْ يَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِيْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ][1] یعنی:کہہ دیجئے!تمہیں ملک الموت ،جو تم پر مقررومأمور ہے، موت دیتا ہے ،پھرتم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ نیزفرمایا:[وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَۃً۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ][2] یعنی:اور وہی غالب ہے اوپر اپنے بندوں کے اوربھیجتا ہے تم پر محافظ(فرشتے)حتی کہ جب آتی ہے تم میں سے کسی ایک کو موت(تو) فوت کرتے ہیں اسے ہمارے رسول(فرشتے) اور وہ نہیں کوتاہی کرتے ۔ کتاب وسنت کے نصوص سے یہ بات معلوم ہے کہ روح قبض کرنے والے فرشتے،کافروں اورمجرموں کی روحوں کو انتہائی سختی اور اذیت کے ساتھ قبض کرتے ہیں، جبکہ مؤمنین صالحین کی روحیں بہت ہی رفق وسہولت کے ساتھ قبض ہوتی ہیں۔ چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندئہ مومن کے دنیا سے انقطاع اور آخرت کی طرف سفر کا وقت آتا ہے توانتہائی روشن چہروں والے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں،ان کے چہرے سورج کی طرح پرنورہوتے ہیں،ان کے ساتھ جنت کا کفن ہوتا ہے نیز جنت کی خوشبوبھی ،وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ جاتے ہیں،حتی کہ ملک الموت آتا ہے اور اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے:اے نفسِ طیبہ ! اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رضاکی طرف رواں دواں ہوجا،چنانچہ اس کی روح جسم سے نکلتی ہے،اس قدر آسانی کے ساتھ جیسے پانی کا قطرہ |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |