Maktaba Wahhabi

379 - 452
رشتہ دار کے سامنے کھلے منہ آنا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہ اجازت نہ تھی کہ کھلے بندوں ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کریں بلکہ انہیں یہ حکم تھا: ’’ جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ ‘‘[1] آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ پردہ تو آنکھوں اور دل کا ہونا چاہیے جبکہ اللہ تعالیٰ پردے کی علت اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے۔ ‘‘[2] اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شرعی پردے سے مرد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے محفوظ اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ خاوند کے چھوٹے بڑے بالغ بھائیوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ان کے ساتھ بے تکلف ہونے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو ۔‘‘یہ سن کر کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دیور تو موت ہے۔‘‘ [3] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کے بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ دار بیوی کے لئے محرم نہیں ہیں لہٰذا عورت کو چاہیے کہ اپنی عزت و آبرو کے تحفظ کے پیش نظر ان سے اختلاط نہ کرے بلکہ خلوت و تنہائی سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ ہمارے ہاں معاشرتی بگاڑ کی ایک وجہ خاوند کا دینی معاملات میں انتہائی تشدد بھی ہے، اس کی والدہ اور دولہا کا دوست جو اس نکاح میں واسطہ تھا، بیٹھ کر گئے، لڑکی کے گھر جانے کے بجائے مسجد میں ڈیرہ لگایا اور وضو کی ٹوٹیوں سے پانی پیا پھر سادگی کے ساتھ مسجد میں نکاح ہوا۔ دلہا میاں اپنے ساتھ دلہن کے لئے دھلے ہوئے کپڑے لے کر گیا تھا وہ کپڑے دلہن کو پہنا دیے گئے اور چاند گاڑی کی ایک سیٹ جو خالی رکھی گئی تھی، اس پر اسے بٹھا کر اپنے گھر لے آئے، اس نکاح کا علاقہ بھر میں بہت چرچا ہوا لیکن اس نکاح کا دوسرا رخ جو انتہائی تکلیف دہ اور روح فرسا تھا وہ یہ کہ دو ماہ بعد لڑکی کا والد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیٹی اپنے سسرال جانے کے لئے آمادہ نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو، یہ مجھے منظور ہے لیکن میں ان کے ہاں نہیں جانا چاہتی۔ میں نے اس لڑکی کو اپنے گھر بلایا اور اپنی اہلیہ مرحومہ کے حوالے کر دیا کہ وہ اسے اپنے سسرال جانے پر آمادہ کرے۔ کیونکہ نکاح کا بندھن کوئی بجلی کا بلب نہیں کہ ایک کی جگہ دوسرا لگا کر کام چلا لیا جائے، اہلیہ نے بہت سمجھایا لیکن لڑکی کسی بھی طرح سسرال جانے پر آمادہ نہ ہوئی، آخر کار یہ کمان میں نے اپنے ہاتھ میں لی اور سسرال کے ہاں نہ جانے کی وجہ معلوم کرنا چاہی، لڑکی نے بتایا کہ سسرال کے ہاں صرف تین افراد ہیں، ایک میرے میاں دوسرے اس کے چھوٹے بھائی اور تیسری اسکی والدہ لیکن وہاں مجھ پر پردہ کے سلسلہ میں اس قدر سختی کی جاتی ہے گھر میں دوپٹہ یا چادر اوڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ مجھے ایک موٹا کھیس دیا گیا ہے کہ گھر میں بھائی کی موجودگی میں اسے اپنے اوپر لینا ہے، اب میں گھر میں اس قدر دلبرداشتہ ہوں کہ مجھے موت قبول ہے لیکن وہاں نہیں جاؤں گی، دلہا سے طلاق لے کر لڑکی کی جان بخشی کرنا پڑی کیونکہ دلہا میاں اعلیٰ نسل کے مسلمان ہونےکی بنا پر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور وہ اس میں کسی طرح
Flag Counter