Maktaba Wahhabi

345 - 452
طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو، پھر وہ اپنی عمر میں جب کبھی تیسری طلاق دے گا تو پھر رجوع نہیں کر سکے گا بلکہ وہ عورت مستقل طور پر اس سے جدا ہو جائے گی۔ بہر حال سائل کو پہلی طلاق کے بعد رجوع کا حق ہے جو اس نے استعمال کر لیا ہے، بیوی کے والد کو درمیان میں حائل نہیں ہونا چاہیے ، اگر پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت گزر جائے تب بھی تجدید نکاح سے رجوع ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم نے عورت کے سرپرست حضرات کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اس ’’ حق رجوع‘‘ کے درمیان رکاوٹ نہ بنیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے مت روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضا مند ہوں۔‘‘[1] اس آیت کی روشنی میں سر پرست حضرات کو چاہیے کہ وہ اسے عزت نفس کا مسئلہ نہ بنائیں اور خاوند نے اگر رجوع کر لیا ہے تو بیٹی کا گھر آباد ہونے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ ( واللہ اعلم) بیویوں سے عدل و انصاف کا مفہوم سوال:قرآن مجید میں ہے کہ ’’ اگر تمہیں ڈر ہو کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو۔‘‘ [2] دوسرے مقام پر فرمایا: ’’ تم اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہشیں کرو۔ ‘‘[3] ان دونوں آیات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صر ف ایک عورت سے ہی شادی ہو سکتی ہے کیونکہ متعدد بیویوں کی موجودگی میں عدل کی شرط کو پورا کرنا ناممکن ہے، وضاحت فرمائیں؟ جواب: اگرچہ پہلی آیت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کے لئے عدل و انصاف کو شرط قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسری آیت میں وضاحت ہے کہ قیام عدل ناممکن ہے لیکن ان دونوں آیات میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی ناسخ و منسوخ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ پہلی آیت میں عدل سے مرادوہ عدل ہے جو انسان کے اختیار میں ہو جیسا کہ باری مقرر کرنا اور نان نفقہ کا اہتمام کرنا ، لیکن ازدواجی زندگی میں کچھ ایسی اشیا بھی ہوتی ہیں جو انسانی اختیار سے باہر ہیں مثلاً محبت اور جنسی تعلقات وغیرہ۔ ان میں کمی بیشی انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور جس آیت میں انصاف نہ کر سکنے کا بیان ہے اس سے مراد تعلقات کی یہ آخری قسم ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان پورا پورا عدل کرتے تھے ، باری کے متعلق یہ وضاحت قرآن میں ہے کہ وہ آپ پر فرض نہ تھی، اس کے باوجود آپ اس کا پورا پورا اہتمام فرماتے تھے، نان نفقہ کے متعلق بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے لیکن دلی محبت اور قلبی تعلقات ، آپ کے بس میں نہ تھے اس لئے آپ بایں الفاظ دعا فرماتے : ’’ اے اللہ ! جو امور میرے بس میں ہیں ، ان کے متعلق میری تقسیم یہ ہے اور جن امور کا میں مالک نہیں ہوں بلکہ وہ تیرے اختیار میں ہیں تو ان کے متعلق مجھے ملامت نہ کرنا۔ ‘‘[4] بہر حال باری اور نان و نفقہ میں عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زیادہ چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے اور جس
Flag Counter