Maktaba Wahhabi

261 - 452
مطلب یہ ہےکہ یہ نوٹ خود مال نہیں بلکہ مال کی ایک رسید ہے۔ 2 دوسری رائے یہ ہے کہ کرنسی نوٹ کو زر اصطلاحی اور ثمن عرفی قرار دیا جائے یعنی اس کاغذی نوٹ کی اگرچہ ذاتی کوئی قدر و قیمت نہیں لیکن اصطلاحی طور پر اسے مخصوص مالیت کا آلہ تبادلہ قرار دے دیا گیا ہے ۔ اب ان کاغذی نوٹوں کی با قاعدہ رسیدیں جاری کی جا تی ہیں مثلاً چیک اور ڈرافٹ وغیرہ بنائے جاتے ہیں جو ان کرنسی نوٹوں کی رسیدیں ہوتی ہیں۔ اب زکوۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے مسئلہ میں ان کاغذی نوٹوں کا حکم سونے چاندی کے حکم کی طرح ہے، اب جو شخص نصاب کے بقدر ان نو ٹوں کامالک بن جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہو جائے گی۔ ہمارا ذاتی رجحان اس دوسری رائے کی طرف ہے، چنانچہ احمد عبد الرحمن البنا الساعاتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک صحیح بات جس پر میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوں وہ یہ ہےکہ زکوۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے مسئلہ میں ان کاغذی نوٹوں کا حکم بھی بعینہٖ سونے چاندی کے حکم کی طرح ہے۔ اسی لیے لو گوں میں ان نو ٹوں کا لین دین بالکل اسی طرح جاری ہے جس طرح سونے چاندی کا لین دین رائج ہے اور نوٹوں کے مالک کو اس کا بالکل اختیار ہے کہ جس طرح چاہے ان کو خرچ کرے اور ان کے ذریعے اپنی ضروریات کو پورا کر ے۔ لہٰذا جو شخص نصاب کے مقدار ان نو ٹوں کا مالک بن جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہو جائےگی۔ ‘‘[1] جن حضرات نے انہیں سند حوالہ یا رسید قرار دیا ہے وہ ان کی پہلی حالت کے پیش نظر ہے ، موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ رسید نہیں بلکہ ثمن عرنی کی حیثیت سے متعارف ہو چکے ہیں۔ ناچ گانے کی ویڈیو اور اس کا کاروبار سوال: ہمارے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر ناچ گانے کی فلم تیار کی جا تی ہے ، اس طرح ویڈیو بنانے کا کاروبار کیا جا تا ہے، اس قسم کے کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جواب: شادی بیاہ کے موقع پر عورتوں کا گانا بجانا اور ناچنا تھرکنا حرام اور ناجائز ہے پھر اس کی فلم یا ویڈیو تیار کرنا اس حرمت کو مزید سنگین کر دیتا ہے۔ اسے پیشے کے طور پر اختیار کرنا درج ذیل آیت کےپیش نظر ناجائز اور قابل نفرت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بلا شبہ جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔‘‘ [2] ناچ گانے کی عکس بندی کرنا بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینا ہے، ایک مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس قسم کا کاروبار کرے جو اللہ کی نا فرمانی پر مبنی ہو۔ چنانچہ سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاہوا تھا، اس دوران ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا:’’اے ابن عباس! ہاتھ کی فنکاری میرا ذریعہ معاش ہے اور اپنے ہاتھ سے تصویریں بنا کر فروخت کرتا ہوں۔ ‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایاکہ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے بھی کوئی تصویر بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت
Flag Counter