Maktaba Wahhabi

251 - 452
جاتی ہے اور اس میں موجود غیر شرعی اور حرام معاملات کو جائز کہا جا تا ہے ، ایسا کرناحرام کو حلال کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق دے۔ آمین۔ بیمہ کی شرعی حیثیت سوال: ہمارے ملک میں مختلف بیمہ کمپنیاں سر گرم عمل ہیں جو بیمہ کے جواز میں بڑے بڑے جید علما کے فتوے پیش کر تی ہیں، کیا ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنا شرعاً جائز ہے؟ جواب: بیمہ نظریے اور نظام کے اعتبارسے باہمی امداد اور تعاون محض پر قائم ہے لیکن اس کی تر ویج کے لیے جو وسائل و ذرائع استعمال کیے گئے ہیں وہ خود اس نظریے کی نفی کر تے ہیں کیونکہ جب اسے کاروباری شکل دی گئی تو اس میں سود ، دھوکہ اور جوئے جیسے بد ترین عوامل کو شامل کر دیا گیا ۔جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کر تے ہیں۔ بیمہ اشخاص اور کمپنیوں کے درمیان ایک خاص عقد کا نام ہے اس کی تعریف عام طور پر درج ذیل کی جا تی ہے۔ ’’یہ ایک تجارتی معاہدہ ہے جس میں ایک طرف صارف مقررہ مدت تک طے شدہ رقم اقساط کی صورت میں یا ایک ہی دفعہ ادا کر دیتا ہے ، دوسری طرف ایک کمپنی ہو تی ہے جو اس ادا کر دہ رقم کے عوض صارف کو ایک مقررہ مدت میں کچھ خاص چیزوں کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر اس صارف کو کسی قسم کا نقصان ہوا تو کمپنی اس نقصان کی تلافی کرے گی، اگر نقصان نہ ہوا تو کمپنی مدت ختم ہو نے کے بعد مکمل رقم یا کچھ رقم رکھ لیتی ہے اگر صارف قسطیں نہ ادا کرسکے تو معاہدہ ختم اور ادا کر دہ رقم ضبط کر لی جا تی ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس قسم کا معاہدہ درج ذیل اسباب کی بنا پر حرام اور ناجائز ہے :اس معاہدہ میں دھوکہ اور لا علمی ہے جسے عربی میں غرر کہا جا تا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس بیع سے منع کیا ہے جس میں دھوکہ کا عنصر شامل ہو۔[1] علماء کرام نے غرر کی تعریف بایں طور کی ہے کہ ہر غیر معمولی ، غیر طبعی اور غیر یقینی صورت حال غرر ہے جس کے پیش نظر کسی معاملہ یا لین دین کے ضروری پہلو متعین نہ کیے جا سکیں اور فریقین آخر وقت تک اس معاملہ میں غیر یقینی صورت حال سے دو چارر ہیں کہ ان کے معاملہ کی اصل صورت بالآخر کیا ہو گی۔ بیمہ میں دھوکہ اس طرح ہے کہ جس نقصان کی ادائیگی طے کی گئی ہے اس کے ہو نے نہ ہو نے کے دونوں پہلو ہیں، وہ نقصان یا حادثہ مقررہ مدت میں ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا، صارف کو آخر وقت تک وہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ وہ اقساط ادا کرتا ہے اگر مدت ختم ہو گئی اور حادثہ پیش آیا نہ تو اس کی ادا کر دہ اقساط ضبط کر لی جائیں گی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ کمپنی ایک ہی قسط وصول کر نے کے بعد حادثہ پیش آنے کی صورت میں نقصان کی تلافی کرنے پر مجبور ہو تی ہے، بعض اوقات پوری اقساط وصول کر لیتی ہے لیکن حادثہ پیش نہیں آتا۔ بہر حال یہ معاملہد سرا سر ایک ’’اندھا سودا‘‘ ہے جس میں دھو کے کا پہلو نمایاں طور پر موجود ہے۔ اس معاہدہ میں جوا پایا جا تا ہے اور جوا کی تعریف یہ ہے کہ ایسا معاہدہ جس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی شریک ہوں ، ان میں
Flag Counter