Maktaba Wahhabi

283 - 452
اس آیت کے پیش نظر محمد ایوب اپنے دادا کی متروکہ جائیداد کا اکیلا وارث نہیں بلکہ اس کی بہنیں بھی اس میں شریک ہیں۔ اسے اپنی ایک بہن کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملتا ہے۔ لہذا اپنی بہنوں کو مقررہ حصہ دے کر باقی جائیداد میں تصرف کر نے کا حق دار ہے وہ بھی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے۔اگر محمد ایوب اپنے دادا کی متروکہ جائیداد میں اپنی بہنوں کو نظر اندازکر کے صرف اپنی اولاد کے نام کرنا چاہتا ہے تو اس کا یہ اقدام شریعت کے خلاف ہے، اسے اس سے اجتناب کرنا چاہے۔ (واللہ اعلم ) وراثت کا ایک مسئلہ سوال:ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں بیوہ، والدین، دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی ؟ جواب: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد مرحوم کی منقولہ جائیداد سے چوتھائی حصہ بیوہ کیلئے ہے کیونکہ خاوند کی اولاد موجود نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور جو مال تم چھوڑ جاؤ اگر تمہاری اولاد نہیں تو بیویوں کا اس میں چوتھا حصہ ہے۔ ‘‘[1] والدین یعنی ماں باپ دونوں کا چھٹا چھٹا حصہ ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور میت کے ماں باپ یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا متروکہ جائیداد میں چھٹا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[2] ان ورثا ء کے مقررہ حصے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ باپ کا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘[3] اس صورت میں باپ کا حصہ مقرر نہیں بلکہ اسے بچا ہوا دیا جائے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے دیے جائیں اور جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کا ہے۔ ‘‘[4] مذکورہ صورت میں میت کا قریبی رشتہ دار باپ ہے ، قرآن کریم کی صراحت کے مطابق میت کے بہن بھائی اس وقت وارث بنتے ہیں جب میت کی اصل یعنی باپ داد ا ور نہ ہی اس کی فرع یعنی اولاد وغیرہ موجود ہو جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر ۱۷۶ میں ہے، اس لیے بہن بھائی باپ کی موجودگی میں محروم ہیں۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں، بیوہ کو تین، باپ کو دو اور ماں کو بھی دو ، یہ سات حصے ہوئے اور باقی پانچ حصے باپ کو بحیثیت عصبہ کے دیے جائیں یعنی : بیوہ (۳) ماں (۲)باپ(2+5=7) دو بھائی (محروم )تین بہنیں (محروم ) ھذا ما عند ی واللّٰه اعلم بالصواب وراثت کا ایک مسئلہ سوال:ایک آدمی ۱۹۷۷ء میں فوت ہوا ، اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ان میں سے ایک شادی شدہ بیٹی اپنے باپ کی وفات سے پہلے ۱۹۷۵ء میں فوت ہو گئی ، اب اس کی اولاد اپنے نانا کی جائیداد سے حصہ مانگتے ہیں، کیا باپ سے پہلے فوت ہو نے والی بیٹی کی اولاد کو اپنے ناناکی جائیداد سے حصہ ملے گا یا نہیں، اگر ملتا ہے تو کتنا حصہ دیا جائے ؟
Flag Counter