Maktaba Wahhabi

117 - 452
وجہ سے باقی ظہر ، عصر اور مغرب با جماعت نہیں پڑھ سکوں گا، لیکن یہ ایک احتمال ہے حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کا یقین تھا کہ جب نماز کی لذت سے آشنا ہو گا تو خود بخود پانچوں نمازیں ادا کرنے پر مجبور ہو گا، اس لیے آپ نے اس کی شرط کو قبول کر لیا۔ اس قسم کی شرط قبول کرنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے کسی دوسرے شخص کو یہ اختیار نہیں کہ نمازوں کے متعلق یہ موقف اختیار کرے، اس توجیہ پر ہمارا دل مطمئن ہے ۔ بہر حال پانچوں نمازیں ادا کرنا ضروری ہیں اور اس میں کمی و بیشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا اور مذکورہ حدیث کو کمی بیشی کے لیے بطور دلیل پیش کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم) عورت کا بازار میں نماز پڑھنا سوال: میں بعض اوقات سودا سلف لینے کے لیے بازار جاتی ہوں وہاں مجھے نماز کا وقت ہو جا تا ہے، اگر بازار میں مجھے نماز ادا کرنا پڑے تو عورت، بازار میں نماز پڑھ سکتی ہے ؟ قرآن و حدیث میں اس کے لیے کوئی ممانعت تو نہیں، وضاحت فرمائیں۔ جواب: عورتوں کے لیے بہتر ہے کہ اپنے گھر میں نمازیں ادا کریں ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’اپنی عورتوں کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرو اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔ [1] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہو تی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عورت کی اپنے گھر کے اندر نماز صحن میں پڑھی جانے والی نماز سے افضل ہے اور گھر کے اندرونی خاص کمرے میں نماز بیرونی کمرے میں ادا کی گئی نماز سے افضل ہے۔[2] غرض یہ ہے کہ عورت جس قدر ہو سکے پر دے کا اہتمام کرے ، ایک روایت میں ہے کہ وہ سادگی کی حالت میں باہر نکلیں۔ [3] لیکن اگر بازار میں نماز ادا کرنے کی ضرورت پیش آ جائے اور وہاں پر دے اور سترے وغیرہ کا اہتمام ہو تو ایسےحالات میں عورت بازار میں نماز ادا کر سکتی ہے ، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی ممانعت میری نظر سے نہیں گزری ، تاہم افضل یہی ہے کہ وہ اپنے گھر میں با پردہ ہو کر نماز ادا کرے۔ (واللہ اعلم ) تین وتر پڑھنے کا طریقہ سوال: تین وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہے ؟ قرآن و حدیث میں اس کی ادائیگی کس طرح منقول ہے ، تفصیل سے وضاحت کریں۔ جواب: تین وتر پڑھنے کے عام طور پر تین طریقے حسب ذیل ہیں: 1 دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے پھر تیسری رکعت الگ سلام سے ادا کی جائے، اسے طریقہ ’’فصل‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ افضل اور بہتر ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے، اس کے بعد وتر (ایک رکعت) پڑھتے۔[4]
Flag Counter