Maktaba Wahhabi

110 - 452
امام بخاری نے اس مسئلہ کو ثابت کر نے کے لیے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ وہ ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے ، جب رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد پڑھنے لگے تو وہ آپ کے بائیں جانب کھڑے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔ [1] ایک روایت میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا :’’میں تجھے دوران نماز اپنی دائیں جانب کھڑا کر تا تھا لیکن تو پیچھے ہٹ جا تا تھا۔ ‘‘[2] اس صراحت سے معلوم ہوا کہ ایک مقتدی ہونے کی صورت میں اسے امام کے دائیں جانب بالکل برابر کھڑا ہونا چاہیے ، اس سے ذرا پیچھے کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے انہیں اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔[3] اگر امام سے ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونا مشروع ہوتا تو ضرور احادیث میں اس کا ذکر ہوتا جبکہ دو آدمیوں کی جماعت کا متعدد مرتبہ واقعہ پیش آیا ہے۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ دو آدمیوں کی جماعت کی صورت میں مقتدی کو اپنے برابر کھڑا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں: میں ایک مرتبہ دوپہر کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ نفل پڑھ رہے تھے، میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز میں شامل ہو گیا تو انھوں نے مجھے اپنی دائیں جانب اپنے برابر کھڑا کیا۔ ‘‘[4] تابعین کرام کا بھی یہی معمول تھا، چنانچہ ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عطا بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ ایک آدمی امام کے ساتھ نماز ادا کر تا ہے تو وہ کہاں کھڑا ہو ؟ انھوں نے فرمایا اس کی دائیں جانب، میں نے عرض کیا اس کے برابر صف بنا کر کھڑا ہو؟تا کہ درمیان میں کوئی خلل نہ رہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں![5] ان احادیث و آثار سے یہ ثابت ہوا کہ جب دو آدمی نماز با جماعت ادا کریں تو مقتدی کو امام کے دائیں جانب بالکل برابر کھڑا ہونا چاہیے ، اس کے آگے یا پیچھےکھڑا ہونا شرعاً ناجائز ہے۔ (واللہ اعلم) لباسِ حیض میں نماز پڑھنا سوال: عورت نے جن کپڑوں میں ایام گزارے ہوں، کیا ان میں نماز پڑھنا جائز ہے جبکہ ان پر خونِ حیض کے نشانات وغیرہ نہ ہوں، قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت کردیں۔ جواب: اسلام میں کچھ عورتیں مخصوص ایام میں خاص لباس پہن لیتی تھیں، طہارت و نظافت کے پیش نظر مخصوص لباس استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’طہر کے لباس کے علاوہ مخصوص ایام میں الگ لباس استعمال کرنا۔ ‘‘ پھر انھوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی عادت بیان کی ہے کہ وہ مخصوص ایام میں الگ لباس استعمال کرتی تھیں۔ [6]
Flag Counter